بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شعبان 1446ھ 07 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

افیون اوربھنگ کاکاروبارکیساہے؟


سوال

ایک شخص بھنگ،تریاق(افیون)وغیرہ کی کاشت کرتاہے،اورپھراس کوفروخت کرتاہے،اوراس کویہ بھی معلوم نہیں کہ کیایہ بھنگ وغیرہ ادویات میں استعمال ہوتاہےیانشہ میں ۔

اب سوال یہ ہےکہ کیامذکورہ بالاچیزوں کوکاشت کرناجائزہے؟

اوراس کوفروخت کرناحلال ہےیانہیں؟

جواب

واضح رہے کہ بھنگ،تریاق(افیون)کاچوں کہ جائزاستعمال بھی ہوتاہے،جیسےادویات اوردیگرجائزامورمیں ،لہذاشرعاًاس کی کاشت کلیۃً منع نہیں ہے،اوردواسازاداروں کویاایسےکسی شخص کوفروخت کرناجس کےبارےمیں معلوم ہوکہ وہ اس سےوہ ادویات میں استعال کرےگاجائزہے،البتہ کسی ایسےشخص کوفروخت کرناجس کےبارےمیں فروخت کنندہ کومعلوم ہویاغالب گمان  ہوکہ خریدارافیون یابھنگ ناجائزمقصدمیں استعمال کرےگامکروہ تحریمی ہے،تاہم حکومت کی طرف سےعام افراداورنجی شعبوں کےلیے افیون اوربھنگ وغیرہ کی کاشت پرپابندی ہے،اورآج کل اس کاعام  استعمال جائزکاموں میں کم اورنشہ آورمیں زیادہ ہے،لہذااس حکومت کی اجازت کےبغیراس کوکاروباری مشغلہ بنانےیااس کی کاشت کاری سےاجتناب کیاجائے۔

نیزاس کی کاشت کاری سےزمین دیگرفصلوں کےلیے قابل زراعت بھی نہیں رہتی،لہذاجہاں اس کی کاشت کی وجہ سے غذاکی قلت پیداہوتووہاں خصوصاًاجتناب کیاجائے،کیوں کہ غذادواسےمقدم ہے۔

درالمختار  میں ہے:

"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون.

قلت: وقد سئل ابن نجيم عن بيع الحشيشة هل يجوز؟ فكتب لا يجوز، فيحمل على أن مراده بعدم الجواز عدم الحل."

(كتاب الاشربة، ج:6، ص:454، ط:سعيد)

وفيه ايضاً:

"(ويحرم أكل البنج والحشيشة)هي ورق القتب (والأفيون) لأنه مفسد للعقل ويصد عن ذكر الله وعن الصلاة (لكن دون حرمة الخمر، فإن أكل شيئا من ذلك لا حد عليه وإن سكر) منه (بل يعزر بما دون الحد) كذا في الجوهرة."

(كتاب الاشربة، ج:6، ص:457، ط:سعيد)

کفایت المفتی میں ہے:

جواب :” افیون کی تجارت جائز ہے “۔

(کفایۃ المفتی، ج:9، ص:129، ط:دارالاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

”گانجہ، بھنگ، افیون کی تجارت مکروہ تحریمی ہے، لیکن اگر کسی نے کر لیا تو صحیح ہو جائے گی“۔

(فتاوی محمودیہ، ج:16، ص:123، ط:فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101296

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں