آج کل افیون کی کاشت کرنا کیساہے،اس میں عشر اور نصف عشر دینے یا نہ دینے کا کیا حکم ہے نیز افیون کے پیسوں پر حج اور قربانی کرنا شرعًا جائز ہے یا ناجائز؟
1-افیون کی کاشت فی نفسہ مباح ہے؛کیونکہ دوا وغیرہ میں اس کو استعمال کیا جاتا ہے،لیکن آج کل معاشرے میں اس کا عمومی استعمال منشیات کے طور پر ہوتاہے اور دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ بطورِ منشیات متعارف ہے، اور لاکھوں لوگ اس کے عادی بن کر اپنی صحت اور زندگی کو داؤ پر لگاچکے ہیں اور حکومت کی طرف سے بھی اس کی تجارت پر پابندی ہے؛ لہذا اس کی تجارت سے اجتناب کرنا چاہیے ، بالخصوص ایسے شخص کے ہاتھوں فروخت کرنا بالکل جائز نہیں ہے جس کے بارے میں بیچنے والے کو یہ معلوم ہو یا غالب گمان ہو کہ وہ اسے نشہ کے طور پر استعمال کرے گا ۔
2-عشر / نصف عشر کا تعلق بارانی و غیربارانی زمین کی پیداوار سے ہے،پس اگر بارانی زمین پر افیون کی کاشت کی گئی ہو ،تو پیداوار پر عشر واجب ہوگا،اور اگر غیر بارانی زمین(یعنی ٹیوب ویل وغیرہ سے سیراب کی جانے والی زمین)پر افیون کی کاشت کی ہو،تو پیداوارپرنصفِ عشر یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ (%5) دینا لازم ہوگا۔
3-افیون کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم حلال ہے،لہذا اس سے حج اور قربانی کرنا جائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون. قلت: وقد سئل ابن نجيم عن بيع الحشيشة هل يجوز؟ فكتب لايجوز، فيحمل على أن مراده بعدم الجواز عدم الحل."
(كتاب الحظروالإباحة، ج: 6، ص: 554، ط: سعيد)
وفیہ ایضا:
"(ويحرم أكل البنج والحشيشة) هي ورق القتب (والأفيون)؛ لأنه مفسد للعقل ويصد عن ذكر الله وعن الصلاة (لكن دون حرمة الخمر، فإن أكل شيئاً من ذلك لا حد عليه، وإن سكر) منه (بل يعزر بما دون الحد)، كذا في الجوهرة."
(كتاب الأشربة، ج: 6، ص: 457، ط: سعيد)
وفیہ ایضا:
"وفي شرح الجواهر: تجب إطاعته فيما أباحه الشرع، وهو ما يعود نفعه على العامة، وقد نصوا في الجهاد على امتثال أمره في غير معصية".
(كتاب الاشربة، ج: 6، ص: 460، ط: سعيد)
احکام القرآن لظفر احمد عثمانی میں ہے:
"طاعة الأمير فيما لا يخالف الشرع"
مسئلة : و هذا الحكم أى وجوب طاعة الأمير مختص بما لم يخالف أمره الشرع، يدل عليه سياق الآية ، فإن الله تعالى أمر الناس بطاعة أولى الأمر بعد ما أمر هم بالعدل في الحكم تنبيهاً على أن طاعتهم واجبة ما داموا على العدل.
(تفسير سورة النساء، الآية: 59، ج: 2، ص: 292، ط:ادارة القرآن والعلوم الاسلامية)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما صفة الواجب فالواجب جزء من الخارج؛ لأنه عشر الخارج، أو نصف عشره وذلك جزؤه إلا أنه واجب من حيث إنه مال لا من حيث إنه جزء عندنا حتى يجوز أداء قيمته عندنا."
(كتاب الزكاة، باب زکاۃ الزرع والثمار، فصل في صفة الواجب،ج:2،ص:63، ط:دار الكتب العلمية)
الدر المختار میں ہے:
"(و) يجب (نصفه في مسقي غرب) أي دلو كبير (ودالية) أي دولاب لكثرة المؤنة وفي كتب الشافعية أو سقاه بماء اشتراه وقواعدنا لاتأباه، ولو سقى سيحاً وبآلة اعتبر الغالب، ولواستويا فنصفه".
(كتاب الزکاة،باب العشر،ج:2، ص: 328، ط: سعید)
کفایت المفتی میں ہے:
’’سوال: مسلمان کو افیون، چرس، کوکین کی تجارت کرنا اور اس سے منافع حاصل کرکے اپنی ضروریات زندگی میں صرف کرنا شریعت محمدی سے جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر کوئی اسی تجارت میں سے کسی دوسرے مسلمان کی دعوت کرے، اس شخص کو باوجود علم ہونے کے دعوت کھانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: افیون، بھنگ، کوکین یہ تمام چیزیں پاک ہیں، اور ان کا دوا میں خارجی استعمال جائز ہے، نشہ کی غرض سے ان کو استعمال کرنا ناجائز ہے، مگر ان سب کی تجارت بوجہ فی الجملہ مباح الاستعمال ہونے کے مباح ہے، تجارت تو شراب اور خنزیر کی حرام ہے کہ ان کا استعمال خارجی بھی ناجائز ہے۔‘‘
(کتاب الحظر والاباحۃ، ماکولات و مشروبات، ص: 129، ط: دارالاشاعت)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
افیون کی تجارت اوراس کی آمدنی کاحکم:
افیون کی آمدنی سے جوزمین خریدکراس میں کاشت کرتے ہیں اس کاشت کی آمدنی کوحرام نہیں کہاجائے گا،ایسی آمدنی سے چندہ لینابھی درست ہے اوران کے یہاں کھاناپینابھی درست ہے۔
(باب البیع الباطل والفاسدوالمکروہ ،الفصل الثالث فی البیع المکروہ، ج: 16، ص: 123، ط:دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101498
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن