بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 محرم 1447ھ 01 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

افیون کی کاشت اور اس کی فصل کو بچانے کے لیے حکومتی افسران کو پیسے دینا


سوال

گذشته  سال ہمارے علاقے میں بہت سے  لوگوں نے تریاق (افیون) کی کاشت کی،  جب فصل اُگی  اور تھوڑی  بڑی ہوگئی تو حکومت نے تریاق کی فصلوں کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا تو  بعض لوگوں نے حکومت کو پیسے دیے تو جن لوگوں نے پیسے دیےتھے حکومت نے ان کی فصلوں کو نقصان نہیں پہنچایا اور جن لوگوں نے  حکومت کو  پیسے  نہیں دئیے  تھے ان کی فصلوں  میں ٹریکٹر کا ہل چلایا گیا اور فصلوں کو خراب کر دیا گیا ۔ سوال یہ ہے:

(1) کیا شریعت مطہرہ کی رو سے اپنی زمین میں تریاق(افیون)   کی کاشت  کرنا یا اس کی کاشت کے لیے ا پنی زمین کو اجاره پر دینا جائز ہے ؟ 

(2) پھر فصل اُگنے  کے بعد فصل کی حفاظت کے لیے  حکومت کو پیسے دینا (تا کہ حکومت میری فصل کو خراب نہ  کرے  اور نقصان نہ پہنچائے ) جائز ہے؟

(3) اور اس فصل سے حاصل شدہ نفع حلال ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ   نشہ کی غرض سے”افیون “  کا    استعمال  حرام اور قابلِ سزا جرم  ہے،  تاہم  افیون  کا  جائز استعمال بھی ہوتا ہے جیسے دوا وغیرہ میں ، اس لیے فی نفسہ   اس کی کاشت کاری  اور اس کے لیے زمین کرایہ پر دینا  ناجائز نہیں ہے ، لیکن   چوں کہ   آج کل اس کا عام استعمال  جائز کام میں نہ ہونے کے برابر ہے ، بلکہ  نشہ کے لیے زیادہ استعمال ہوتا ہے، اور اسی بنا پر حکومت کی طرف سے اس پر  پابندی ہے  اور  حکومت کے  ایسے قوانین جو  رعایا کی مصلحت کے لیے ہوں ، ان کی پاسداری لازم ہے۔ لہذا:

1:  اگر حکومت کی طرف سے  افیون کی کاشت پر  پابندی ہو  اور  اس کی کاشت کرنے یا اس کی  کاشت کے لیے زمین کرایہ پر دینے سے اجتناب کیا جائے۔

2: ایسی صورت میں  افیون کی  فصل کو  بچانے کے لیے  افسران کو پیسے دینا یہ ”رشوت“ ہے ، جس کا لینا اور دینا دونوں ناجائز ، حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔

3: اگر  جائز کام  کے لیے افیون فروخت کی تو اس کی آمدنی حرام نہیں ہوگی، البتہ اس کے لیے رشوت دی تو اس کا گناہ ہوگا۔اور اگر ناجائز کام کے لیے فروخت کی یا کسی ایسے شخص کو فروخت کی کہ جس کے بارے میں معلوم تھا کہ وہ اس کو ناجائز مقصد کے لیے استعمال کرے گا تو ایسی صورت میں یہ فروخت کرنا  جائز نہیں ہوگا اور آمدنی بھی حلال طیب نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون.

(قوله :ومفادة إلخ) أي مفاد التقييد بغير الخمر، ولا شك في ذلك لأنهما دون الخمر وليسا فوق الأشربة المحرمة، فصحة بيعها يفيد صحة بيعهما فافهم."

( كتاب الأشربة، 6/ 454، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"وبه علم أن المراد الأشربة المائعة، وأن البنج ونحوه من الجامدات إنما يحرم إذا أراد به السكر وهو الكثير منه، دون القليل المراد به التداوي ونحوه كالتطيب بالعنبر وجوزة الطيب، ونظير ذلك ما كان سميا قتالا كالمحمودة وهي السقمونيا ونحوها من الأدوية السمية."

(كتاب الحدود، باب حد الشرب،  مطلب في البنج والأفيون والحشيشة،  4/  42، ط. سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأنّ طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض، فكيف فيما هو طاعة؟"

(كتاب السير، فصل فى أحكام البغاة، 9/ 453، ط:دارالحديث. القاهرة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611102543

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں