بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایفیلیٹ مارکیٹنگ کا رائج طریقہ جس میں ممبر بنانے اور ممبر کے ممبر بنانےپر ملنے والے کمیشن کا حکم


سوال

 آج کل افیلیٹ مارکیٹنگ (affiliate marketing) کا ایک طریقہ یہ بھی رائج ہے جس میں تین کورسز ہوتے ہیں ، ایک elite کورس ہے ، جس کی قیمت 599 روپے ہے  ، اس میں اگر آپ نے کسی کو جوائن کیا تو آپ کو ڈائریکٹ 400روپے مل جائیں گے اور آپ کو جس نے جوائن کیا ہے ، اس کو 100 روپے مل جائیں گے ، دوسرا silver کورس ہے ، جس کی قیمت 2329روپے  ہے ، اس میں اگر آپ نے کسی کو جوائن کیا تو آپ کو1700 روپے کمپنی کی طرف سے مل جائیں گے ، اور آپ کو جس نے جوائن کیا ہے اس کو تقریبا 250مل جائیں گے ، اور تیسرا gold کورس ہے جس کی قیمت تقریبا 4100ہے اس میں اگر آپ نے کسی کو جوائن کیا تو آپ کو 3000 روپے کمپنی کی طرف سے مل جائیں گے ، اور آپ کو جس نے جوائن کیا ہے اس کو تقریبا 400ملیں گے ، اور بس ۔ اب ہوتا یہ ہے کہ ان کورسز میں آپ کو آن لائن بزنیس کا طریقہ سکھلایا جاتا ہے کہ Facebook , Instagram اور اسی طرح دیگر آن لائن پلیٹ فارم سے آن لائن کمائی کیسے کی جاۓ ؟ اور اس کے لئے لوگوں کو اپنی طرف کیسے مائل کیا جاۓ اور لوگوں کو کیسے سمجھایا جاۓ ؟ اب جیسے ہی کوئی آپ کے کورڈ سے جوائن ہوگا تو جوائن کرنے والا ، کورس کے سارے وڈیوز کی You tube لنک آپ کے واٹس اپ پر بھیج دے گا ، اور کہہ دے گا کہ یہ سب وڈیوز دیکھو اور جو جو بھی سمجھ میں نہ آۓ وہ ہم سے پوچھ لینا ، اور وقتا فوقتا لوگوں کو Live meeting کر کے بھی سمجھاتے اور سکھاتے ہیں ۔ اس میں لوگ زیادہ کماتے اس لیے ہیں کہ وہ یہ سب سیکھ کر اس ترکیب پر لوگوں کو اس کمپنی میں جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں ، پھر اگر کوئی شخص اس کی آئی ڈی سے جوائن ہوگا تو اس کو الحاق کے پیسے دیے جائیں گے ، جیسا کہ اس کا ذکر گزرا۔ اور اس میں لوگوں کا ٹارگٹ بھی تقریبا یہی ہوتا ہے کہ میں کیسے کسی کو جوائن کراؤں کہ جس سے مجھے اس کا کمیشن مل جاوے ؟ اور جو جتنا زیادہ کمیشن سے کما تا ہے اس کو وہ اپنی کمائی سمجھتے ہیں ۔ گویا کہ ان کا مقصد لوگوں کو زیادہ سے زیادہ جوڑ کر کمیشن پر کمیشن حاصل کرنا ہوتا ہے اور بس ۔ تو کیا اس طرح جوڑ کر پیسے کمانا جائز ہے ، اگر جواب اثبات میں ہو تو اس کی کیا وجہ ؟ اور اگر اس میں تیسرے آدمی کو بھی کچھ ملتا ہے تو نیٹ ورک بننے کی وجہ سے عدم جواز کی بات ہے تو پھر ایک اور کمپنی ہے جس میں صرف جوڑ نے والے کوتو ملتا ہے ، لیکن جوڑ نے والے کے جوڑ نے والے کو نہیں ملتا تو کیا اس صورت میں بھی عدم جواز ہی کی بات ہوگی یا جواز کی ؟ 

جواب

صورت مسئولہ میں ذکر کردہ صورت  ملٹی لیو ل مارکیٹنگ  کی ہے اور  ملٹی لیول مارکیٹنگ  کا بزنس ماڈل چین در چین کمیشن کا ہے، کہ نئے ممبر بنانے کے بعد  ہر بعد میں شامل ہونے والے ممبر کے منافع میں سے پہلے شخص کو بھی منافع ملتا رہتا ہے،  جب کہ  شریعت میں بلا  محنت  کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے، اسلامی معیشت کے اصولوں کی رو سے  کمیشن کو مستقل تجارتی حیثیت حاصل نہیں ہے، بلکہ فقہاء کرام نے  کمیشن کے معاوضہ کو اجارہ کے اصولوں سے منحرف ہونے اور جسمانی محنت کے غالب عنصر سے خالی ہونے کی بنا پر ناجائز قرار دیا ہے،  لیکن لوگوں کی ضرورت اور کثرت تعامل کی بنا پر کمیشن کے معاملہ کی محدود اجازت دی ہے، لیکن ساتھ ہی اکثر صورتوں کے ناجائز ہونے کی صراحت کی ہے۔

لہذا  جس  معاملہ میں خود اپنی محنت اور عمل شامل ہو اور وہ کام بھی جائز ہو تو  اس کا کمیشن لینا تو جائز ہے، لیکن  کسی  کاروبار  کی  اس طرح   تشہیر  کرنا کہ  جس میں چین در چین کمیشن ملتا رہے جب کہ   بعد والوں  کی خریداری یا ان کو شامل کرانے میں   بالائی (اوپر والے) ممبر کی کوئی خاص محنت شامل نہ ہو    بلکہ ماتحت ممبران کی محنت کا ثمرہ ہو تو یہ  دوسرے کی محنت سے فائدہ اٹھانا جو کہ استحصال کی ایک شکل ہے، اور یہ جائز نہیں ہے،نیز ملٹی لیول مارکیٹنگ  کمپنی  کا عام طور پر   بنیادی مقصد ممبر سازی ہوتی ہے، حقیقی خرید وفروخت مقصود نہیں ہوتی ، بلکہ ممبر سازی کے ذریعے  کمیشن در کمیشن کاروبار چلانا  اصل مقصد ہے جو  کہ جوئے کی ایک نئی شکل ہےاور شرعی طور پر دلال (ایجنٹ) کو اپنی دلالی کی اجرت (کمیشن) ملتی ہے جو کہ کسی اور کی محنت کے ساتھ مشروط نہیں ہوتی، لیکن مذکورہ کمپنی کے ممبر کی اجرت دوسرے  ما تحت ممبران کی محنت پر مشروط ہوتی ہے جو کہ  شرعاً درت نہیں۔ لہذاس طرح کی ملٹی نیٹ ورک مارکیٹنگ کے ساتھ منسلک ہونا اور دوسروں کو اس میں شامل کراکے کمیشن وصول کرنا، ناجائز ہے۔

لیکن جو کمپنی ممبر بنانے والے کو تو کمیشن دیتی ہو ممبر کے ممبر بنانے والے (یعنی تیسرے شخص) کو کمیشن نہ دیتی ہوتو یہ اس صورت میں درست ہوگا جب کمپنی کی کوئی مصنوعات ہویا کمپنی کسی جائز خدمات کے انجام دہی کے بدلے میں عوض لیتی ہوتو اس طرح کی کمپنی کی خدمات کو لینے یا مصنوعات    کے خریدنے پر دوسروں کو  قائل کرنے والے کے لیے  کمپنی سے کمیشن لینا  درست ہوگا ، البتہ  اگر اس طرح کی کمپنی کی اگر  اپنی کوئی مصنوعات یا کوئی جائز خدمات  نہ ہو بلکہ صرف ممبر بنانےپر کمیشن ملتا ہوتو شرعا اس طرح کمیشن لینا جائز نہ ہوگا ۔

شعب الإيمان میں ہے:

"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله صلّى الله عليه وسلّم ‌أيّ ‌الكسب أطيب؟ قال:عمل الرجل بيده، وكلّ بيع مبرور."

(التوكل بالله عز وجل والتسليم لأمره تعالى في كل شيء ،2/ 84،ط:دار الكتب العلمية)

البنایہ شرح الہدایہ میں ہے :

"وقد نهى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عن بيع الملامسة والمنابذة. ولأن فيه تعليقًا بالخطر".

م: (تعليقًا) ش: أيتعليق التمليكم: (بالخطر) ش: وفي " المغرب "، الخطر: الإشراف على الهلاك، قالت الشراح: وفيه معنى القمار؛ لأن التمليك لايحتمل التعليق لإفضائه إلى معنى القمار". 

(كتاب البيوع ،8/ 158، دار الكتب العلمية)

الموسوعۃالفقہیہ الکویتیہ میں ہے :

"وقال المحلي: صورة القمار المحرم التردد بين أن يغنم وأن يغرم".

 (39/ 404، طبع الوزارة)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

( کتاب الاجارہ، باب الاجارۃ الفاسدہ، مطلب فی اجرۃ الدلال،6/ 63،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407101268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں