بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آفت سے بچنے کے لیے قرآن مجید آفت کے سامنے کرنا


سوال

قرآن کو بارش کے سامنے رکھنا شرعًا درست ہے یانہیں؟

آیا ایسا کرنے سے تو قرآن کی بے ادبی لازم تو نہیں ؟

جواب

واضح  رہے کہ دنیا میں مختلف  آفات کا آنا قدرتی عمل ہے،  جس سے کوئی زمانہ  محفوظ نہیں رہا ہے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کا مبارک دور، پھر خیر القرون کے زمانے میں بھی مختلف آفات کا سامنا رہا، آفات کے نزول کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم   پردہ فرما جانے کے بعد خیر القرون  کے زمانے میں کسی نے بھی قرآن مجید کو آفت کے سامنے نہیں کیا، بلکہ ایسے مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کا معمول یہ ہوتا تھا کہ وہ اللہ کی طرف رجوع فرماتے تھے،  نوافل دعا و ذکر و اذکار میں مشغول ہو جاتے تھے، اور یہی طریقہ خیر القرون  میں اور اس کے بعد کے ادوار میں بھی   اختیار کیا جاتا رہا ہے، پس آفت  سے بچاؤ  کے لیے اگر قرآن مجید آفت کے سامنے کرنا مناسب ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ضرور ثابت ہوتا، یہی وجہ ہے کہ فقہاء  کرام نے ایسے مواقع پر انفرادی  طور پر نوافل ادا کرنے کو مستحب  قرار دیا ہے، لہذا کسی بھی آفت سےبچاؤ کے لیے قرآن مجید آفت کے سامنے کرنے سے اجتناب کرنا  چاہیے۔ اور اگر بارش کے سامنے  رکھنے سے مراد مصحف کو بارش میں اس طور پر رکھنا  ہے کہ وہ گیلا ہوجائے، تو یہ مصحف کی بے ادبی شمار ہوگا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائعمیں ہے:

"وكذا تستحب الصلاة في كل فزع: كالريح الشديدة، والزلزلة، والظلمة، والمطر الدائم؛ لكونها من الأفزاع، والأهوال، وقد روي عن ابن عباس - رضي الله عنهما - أنه صلى لزلزلة بالبصرة."

( كتاب الصلاة، فصل صلاة الكسوف والخسوف، فصل قدر وكيفية صلاة الكسوف، ١ / ٢٨٢، ط: دار الكتب العلمية )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144404100216

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں