بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 ربیع الثانی 1446ھ 07 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، تین بیٹے اور چار بیٹیوں میں وراثت کی تقسیم


سوال

 ایک گھر جو والد صاحب کے نام پر تھا،  پچاس لاکھ میں فروخت ہوا۔ جس میں وارثان کی تعداد مندرجہ ذیل ہیں:

مرحوم کی بیوہ ،  چار بیٹیاں شادی شدہ،  تین بیٹے جو کہ حیات ہیں اور ایک بیٹا جو کہ مرحوم سے پہلے  فوت ہوگیا ہے ، اور اس کی بیوہ نے کہیں اور شادی کی ہے اور اس کے بچے مرحوم سے ہیں۔

مرحوم کے والدین کا انتقال مرحوم سے پہلے ہوا تھا۔براِ کرم تقسیم بتائیں!

جواب

 صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد   اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے  ایک تہائی مال میں سے نافذ کرنے کے بعد  باقی   کل متروکہ جائیداد  (منقولہ و غیر منقولہ ) کو  80 حصوں میں تقسیم کر کے 10 حصے بیوہ کو، 14 حصے ہر زندہ بیٹے کو، 7 حصے ہر بیٹی کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے :

میت : 8 / 80 ۔۔۔ مضروب : 10

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
101414147777

یعنی فیصد کے تناسب سے 12.50 فیصد بیوہ کو، 17.50 فیصد ہر زندہ بیٹے کو اور 8.75 فیصد ہر بیٹی کو ملے گا۔

مرحوم کی زندگی میں اس کا جو بیٹا فوت ہوگیا تھا اس  فوت شدہ بیٹے کی بیوہ اور اولاد کا مرحوم  کی وراثت میں شرعاً کوئی حصہ نہیں ہے۔ہاں البتہ مرحوم والد کے شرعی ورثاء اگر اپنے اپنے حصوں میں سے دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں اور یہ ان کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101860

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں