بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اعتکاف کے دوران مسواک کرنے اور دامن، آستین یا پائنچے دھونے کا حکم


سوال

 کیا معتکف وضو کے دوران مسواک کرے تو اعتکاف ٹوٹتا ہے؟ کیا وضو کے دوران دامن یا آستینوں کو یا پائنچوں کو دھولیں تو اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے؟ 

جواب

مسواک کرنے کے  لیے یا میلے کپڑے دھونے کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں،  اگر  نکلے گا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا، اور قضا  لازم ہوگی،کیوں کہ مسواک کرنا اور میلے کپڑے دھونا  شرعی و طبعی  حاجت میں شامل نہیں،جب کہ معتکف کے لیے شرعی و طبعی ضرورت کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے مسجد سے نکلنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، البتہ وضو کے دوران مسواک کرنے سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا ہے، اسی طرح اگر کپڑوں میں کسی جگہ  (دامن، آستین یا پائنچوں) وغیرہ پر نجاست لگی ہو تو   اس دوران  اس جگہ کو  دھونے سے بھی اعتکاف نہیں ٹوٹتا ہے، اسی طرح اگر نماز کے  لیے وضو کرتے ہوئے اضافی وقت خرچ  کیے بغیر جلدی سے پاک کپڑوں کی کسی میلی جگہ کو دھولیا جائے تو اس سے بھی وضو نہیں ٹوٹتا ہے، البتہ اگر کپڑوں پر نجاست نہ لگی ہو اور صرف کسی حصہ کے  میلے ہونے کی وجہ سے مسجد سے باہر دھونے کے  لیے جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، اسی طرح وضو کے دوران کپڑوں کا میل دور کرنے کے  لیے دھونے کی صورت میں اگر اضافی وقت لگ جائے تو اس کی وجہ سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

سنن ابي داؤد  میں ہے:

"حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ - يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ - عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتِ: السُّنَّةُ عَلَى الْمُعْتَكِفِ أَلَّا يَعُودَ مَرِيضًا، وَ لَايَشْهَدَ جِنَازَةً، وَ لَايَمَسَّ امْرَأَةً وَ لَايُبَاشِرَهَا، وَ لَايَخْرُجَ لِحَاجَةٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ، وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ، وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدٍ جَامِعٍ".

( سنن أبي داود، كِتَابٌ : الصَّوْمُ، بَابٌ : الْمُعْتَكِفُ يَعُودُ الْمَرِيضَ، ٢ / ٥٨٠، رقم الحديث، ٢٤٧٣)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قَالَ): وَلَايَنْبَغِي لِلْمُعْتَكِفِ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ الْمَسْجِدِ إلَّا لِجُمُعَةٍ أَوْ غَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ أَمَّا الْخُرُوجُ لِلْبَوْلِ وَالْغَائِطِ فَلِحَدِيثِ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَايَخْرُجُ مِنْ مُعْتَكِفِهِ إلَّا لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ»؛ وَلِأَنَّ هَذِهِ الْحَاجَةِ مَعْلُومٌ وُقُوعُهَا فِي زَمَانِ الِاعْتِكَافِ، وَلَايُمْكِنُ قَضَاؤُهَا فِي الْمَسْجِدِ فَالْخُرُوجُ لِأَجْلِهَا صَارَ مُسْتَثْنًى بِطَرِيقِ الْعَادَةِ".

( بَابُ الِاعْتِكَافِ، ٣ / ١١٧، ط: دار المعرفة)

 الفتاوى الهندية (1/ 212):

"(وأما مفسداته) فمنها الخروج من المسجد فلا يخرج المعتكف من معتكفه ليلًا ونهارًا إلا بعذر، وإن خرج من غير عذر ساعة فسد اعتكافه في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى- كذا في المحيط. سواء كان الخروج عامدًا أو ناسيًا، هكذا في فتاوى قاضي خان".

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 702):

"أو حاجة طبيعية" أي يدعو إليها طبع الإنسان ولو ذهب بعد أن خرج إليها لعيادة مريض أو صلاة جنازة من غير أن يكون لذلك قصدا جاز بخلاف ما إذا خرج لحاجة الإنسان ومكث بعد فراغه فإنه ينتقض اعتكافه عند الإمام بحر "واغتسال من جنابة باحتلام" أما جناية الوطء فمفسدة وفيه أن الغسل من الحوائج الشرعية ولعل عدم إياه من الطبيعية باعتبار سببه".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202267

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں