بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 جمادى الاخرى 1446ھ 09 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ایسے گیس اسٹیشن میں کام کرنا کیسا ہے جہاں شراب بھی بیچی جاتی ہو؟


سوال

امریکا میں ایک گیس اسٹیشن جس میں شراب بھی بیچی جاتی ہے، لیکن اس کی آمدن کا زیادہ حصہ شراب نہیں، بلکہ گیس ہے، تو کیا اس میں ملازمت کرنا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ گیس اسٹیشن کی آمدن کا اکثر حصہ گیس  کا ہے، نہ کہ شراب کا، تو اس میں ملازمت کرنا جائز ہے اور اس سے حاصل شدہ تنخواہ بھی حلال ہے بشرطیکہ مسلمان ملازم اس بات کا خیال رکھے کہ وہ نہ شراب کو بیچے، نہ پیش کرے، نہ منتقل کرے اور نہ اس کو اٹھا کر حوالے کرے، اس لیے کہ حدیث میں ایسے شخص پر لعنت آئی ہے، مسلمان ملازم کو چاہیے کہ وہ گیس اسٹیشن کے مالک یا دیگر ملازمین کو بتا دے کہ وہ شراب سے متعلق کسی بھی قسم کی معاونت کرنے کا مجاز نہیں ہے، نیز یہ واضح رہے کہ ایک مسلمان کے لیے ایسی جگہ پر ملازمت اختیار کرنا جہاں شراب بیچی جاتی ہو، مناسب نہیں ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا اولیٰ ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌لعن ‌الله ‌الخمر وشاربها وساقيها وبائعها ومبتاعها وعاصرها ومعتصرها وحاملها والمحمولة إليه». رواه أبو داود وابن ماجه."

(كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال، ج: 2، ص: 846، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ:’’حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے شراب پر لعنت فرمائی، اسی طرح اس کے پینے، پلانے اور فروخت کرنے والے اور اس کے خریدار اور نچوڑنے والے اور اس کے اٹھانے والے اور جس کے لیے اٹھائی جائے ان سب پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘ (مظاہرِ حق)

الفقه الإسلامي وأدلته میں ہے:

"يجوز أخذ المسلم دينه على كافر، من ثمن خمر، أو خنزير، لصحة بيعهما من الكافر لغيره؛ لأنهما مال متقوم في حقه، بخلاف الدين على مسلم، لا يصح أخذه من ثمن خمر أو خنزير، لعدم صحة البيع، لكن أجاز أبو حنيفة خلافاً لصاحبيه أن يوكل المسلم ذمياً في بيع الخمر. وكذلك لا يجوز استيفاء الدين من كسب حرام كالمرابي والمرتشي والغصب والسارق والمغنية."

(بيع العنب للخمار، ج: 4، ص: 233، ط: دار الفكر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144406101375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں