بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایسی کمپنی میں ملازمت کرنا جہاں کے اکثر کلائنٹس بینک ہوں


سوال

ہمارا ادارہsoftware houseجو پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں خدمات سرانجام دے رہا ہے،ہم مختلف اداروں کو خدمات اورsoftwareفراہم کرتے ہیں ،مثلاً سرکاری ادارے،بینک،ہسپتال،پرائیوٹ ادارے وغیرہ۔ہمsoftware solutionکے ساتھ ساتھ آلات اورaccessoriesبھی مہیا کرتے ہیں،مثلاً بایومیٹرک ڈیوائیسس،پرنٹرز،اے ٹی ایم،پلاسٹک کاڑدز،کیش کاؤنٹنگ مشین،چیک اسکینر وغیرہ ،ہمارے زیادہ تر کلائنٹس  بینک ہیں اور ہماری ٹیم کو بعض اوقات بینک جاکر  سافٹ وئیر کی ٹیسٹنگ  اور ڈیویلپمنٹ کرنا پڑتی ہے۔پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہمارا اس ادارے میں کام کرنا ٹھیک ہے؟

جواب

صورت ِمسئولہ میں اگر مذکورہ کمپنی(software house)کی غالب آمدنی حلال ہو  اور سائل کی ذمہ داری بھی جائز امور کے انجام دینے کی ہو تو سائل کے لیے وہاں پر ملازمت کرنا  جائز ہوگا،لیکن سوال میں وضاحت ہے کہ کمپنی کےاکثر کلائنٹس بینک ہیں اور بسا اوقات وہاں جاکر  سافٹ وئیر کی ٹیسٹنگ  اور ڈیویلپمنٹ  بھی کرنی پڑھتی ہے، جب کہ بینک کے لیے سافٹ وئیر بنانا اور اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے،اور کمپنی کی غالب آمدنی کا ذریعہ بینک ہی ہے ،نیز کمپنی عموماً اپنے تمام ملامین کو تنخواہ  مجموعی آمدنی سے دیتی ہے تو   مذکورہ کمپنی میں نوکری کرنا جائز نہیں ہے،سائل کو چاہیے کہ  کسی ایسی جگہ ملازمت تلاش کرے، جہاں مذکورہ قباحتیں  نہ ہوں اور ان کا کام بھی جائز ہو،جب تک دوسری جگہ ملازمت نہ ملے،اس وقت تک مجبوری کی وجہ سے یہاں کام کرےاور بقدر ضرورت رقم اجرت میں سے استعمال کرے۔ 

قران ميں ہے:

"وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ"

[المائدة:2]

ترجمہ: اور گناہ  اور زیادتی میں  ایک  دوسرے  کی اعانت مت کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ، بلاشبہ  اللہ تعالیٰ  سخت سزا دینے والے ہیں۔(از بیان القرآن)

حدیثِ مبارک  میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال:هم سواء."

(مشکاة المصابیح، باب الربوا، ص:244، ط:قدیمی)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود لینے والے اور دینے والے اور لکھنے والے اور گواہی دینے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا: یہ سب لوگ اس میں برابر ہیں، یعنی اصل گناہ میں سب برابر ہیں اگرچہ مقدار اور کام میں مختلف ہیں۔(از مظاہر حق)

وفي  الفتاوى الهندية:

"أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع۔"

(كتاب الكراهية،الباب الثاني،5/ 342،ط:رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304100937

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں