ایک امام صاحب نماز میں سورۂ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہوئے"صراط الذین"کے ص کو اکثر "شراط الذین"پڑھتے ہیں،کئی نمازیوں نے اس کو سنا ہےایک دوسرے سے اس کا تذکرہ کیا ہےاور امام صاحب کو اس طرف توجہ دلائی ہے،لیکن وہ اس بات کو قبول نہیں کرتے تو نمازیوں نے ایک دوسرے عالم سے اس بات کا تذکرہ کیا تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ مذکور ہ امام صاحب "صراط الذین" کو "شراط الذین" پڑھتے ہیں۔دریافت یہ کرنا ہے کہ:
1۔ان امام صاحب کے پیچھے شرعا نمازوں کا کیا حکم ہے؟نیزکیا ان صاحب کو امامت کے لیے مقرر کرنا صحیح ہے،جب کہ صحیح تلفظ سے پڑھنے والےدوسرے عالم یا حافظ یا قاری جماعت میں پابندی سے موجود ہوتے ہیں؟
2۔کیا ایسے عالم یا حافظ کو امامت کے لیے مقرر کرنا صحیح ہے،جس کی تجوید ٹھیک نہ ہو؟
جواب سے پہلے بطورتمہید چندباتیں ذکر کی جاتی ہیں، سوال اگرکسی خاص شخص سے متعلق ہے تو جواب سے پہلے کچھ اہم باتوں کی وضاحت ضروری ہے:
1۔ کسی خاص شخص سے متعلق سوال پوچھنا ہو تو ضروری ہے کہ جو دعویٰ یا الزام ہو اس کا ثبوت بھی پیش کیا جائے، یا نزاعی مسئلہ ہو تو جانبین کا موقف مستند ذرائع سے پیش کیا جائے، اس لیے مذکورہ سوال جیسے معاملات میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ کسی مستند دار الافتاء میں ثبوت کے ساتھ ( مثلاً: تلاوت کی آڈیو ریکارڈنگ کے ساتھ) حاضر ہوکر جواب معلوم کرلیا جائے۔
2۔ اور اگر ثبوت نہ ہو تو کسی خاص شخص کو نشانہ بنا کر سوال کرنا شرعاً پسندیدہ ودرست نہیں ہے۔ اگر عمومی مسئلہ دریافت کرنا ہو تو یوں سوال کرلیا جائے کہ اس طرح قرأت کرنا کہ جس میں (مثلاً) ایک حرف کو دوسرے سے تبدیل کرنا پایا جاتا ہو یا صفات کی رعایت نہ رکھی جاتی ہو کیا حکم ہے؟ اور ایسی قرأت کرنے والے کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
نیز اس بات کا فیصلہ کرنا کہ امام کی قرأت درست ہے یا غلط؟ اور اگر غلطیاں ہیں تو کس درجہ کی ہیں؟ یہ عوام کا کام نہیں ہے، بلکہ یہ فیصلہ ماہر فن یعنی ماہر مجود قاری ہی کر سکتا ہے، اس لیے امام صاحب کی قرأت کسی ماہر مجود قاری اور مفتی صاحب کو سنوا کر ان سے فیصلہ کروالیا جائے کہ امام صاحب کی قرأت کیسی ہے؟
۱) بہر حال ذیل میں ایسی قرأت کا حکم تفصیلاً درج کیا جارہاہے،چناں چہ اگر واقعۃً کوئی شخص ایسے قراءت کرتا ہو تو اس کا حکم یہ ہوگا کہ جو شخص مخارج اور صفات سے واقف نہیں،بوجہ ناواقفیت یا عدم التمییزکے اگر اس کی زبان سے ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف نکل جائے(خواہ کوئی حرف ہو)اور وہ یہ سمجھے کہ میں نے وہی حرف نکالاہے،جوقران شریف میں ہے،تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی،اور اس کی اقتدا درست ہوگی۔اور جو شخص واقف ہے ،اور صحیح حرف نکالنے پر فعلا ًقادر بھی ہے،پھر بھی جان بوجھ کریا بے پروائی سے غلط حرف نکالتاہے،تو جس جگہ معنی میں تغیر فاحش ہوگا،اس کی نماز فاسدہوگی،اور اس کی اقتدا درست نہ ہوگی۔البتہ نماز کے جوازوعدم فساد سے یہ ثابت نہیں ہوتی کہ اس کے لیے اس طرح پڑھتے رہنا جائز ہوگیا،اور پڑھنے والا گناہ گار نہ ہوگا۔بلکہ اپنی قدرت کےموافق حرف کوصحیح پڑھنے کی مشق کرنا،اور کوشش کرتے رہنا ضروری ہے،ورنہ گناہ گار ہوگا۔اور اگر وہ بعض حروف کو نکالنے پر بالکل قادر ہی نہیں (توتلا پن ہونے کے بناءپر)تو اس کی اقتداء درست نہ ہوگی۔اور خشوع نماز کی روح ہے. لیکن نماز کو فاسد نہیں کرتا، تاہم جس امام کی قراءت اور تلفظ تجوید کےقواعد کےخلاف ہونا ماہر قاری کے فیصلہ سے ثابت ہوجائے اور وہ درست کرنے پر تیار نہ ہو تو انتظامیہ اس امام کو معزول کر کے کسی اچھے (تجوید کےقواعد کےمطابق )پڑھنے والے عالم کو مقرر کرلے۔
2۔ امام مقرر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ امام ضروری شرعی مسائل کا علم رکھتا ہو،قرآن صحیح پڑھنا جانتا ہو،متبع شریعت اور پابند سنت ہو،لہذا مذکورہ صورت میں اگر امام کو مقرر کرنےسےپہلے معلوم ہو جائے کہ اس کی تجوید صحیح نہیں ہے اور وہاں تجوید کے ساتھ اس سے بہتر پڑھنے والے موجود ہوں تو ایسے امام کو امامت کے لیے مقرر کرنا درست نہیں ۔
صحیح مسلم میں ہے:
"عن إسماعيل بن رجاء قال: سمعت أوس بن ضمعج يقول: سمعت أبا مسعود يقول: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: « يؤم القوم أقرؤهم لكتاب الله وأقدمهم قراءة فإن كانت قراءتهم سواء فليؤمهم أقدمهم هجرة، فإن كانوا في الهجرة سواء فليؤمهم أكبرهم سنا."
(کتاب المساجد،باب من أحق بالإمامة؟،ج:2،ص:133،رقم:673،ط:دار الطباعة العامرة - تركيا)
فتاوی شامی میں ہے:
"و في خزانة الأكمل قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذلك تفسد، و إن جرى على لسانه أو لايعرف التمييز لاتفسد، و هو المختار حلية و في البزازية: و هو أعدل الأقاويل، و هو المختار اهـ و في التتارخانية عن الحاوي: حكى عن الصفار أنه كان يقول: الخطأ إذا دخل في الحروف لايفسد؛ لأن فيه بلوى عامة الناس؛ لأنهم لايقيمون الحروف إلا بمشقة. اهـ. و فيها: إذا لم يكن بين الحرفين اتحاد المخرج و لا قربه إلا أن فيه بلوى العامة كالذال مكان الصاد أو الزاي المحض مكان الذال و الظاء مكان الضاد لاتفسد عند بعض المشايخ.قلت: فينبغي على هذا عدم الفساد في إبدال الثاء سينا و القاف همزة كما هو لغة عوام زماننا، فإنهم لايميزون بينهما و يصعب عليهم جدا كالذال مع الزاي و لا سيما على قول القاضي أبي عاصم و قول الصفار، و هذا كله قول المتأخرين، و قد علمت أنه أوسع و أن قول المتقدمين أحوط قال في شرح المنية: و هو الذي صححه المحققون و فرعوا عليه، فاعمل بما تختار، و الاحتياط أولى سيما في أمر الصلاة التي هي أول ما يحاسب العبد عليها و كثير من المشايخ أفتوا به قال القاضي الإمام أبو الحسن و القاضي الإمام أبو عاصم: إن تعمد فسدت و إن جرى على لسانه أو كان لايعرف التميز لاتفسد و هو أعدل الأقاويل و المختار هكذا في الوجيز للكردري."
(كتاب الصلاة،باب:مالايفسد الصلوة ومالا يكره فيها،ج:1،ص:633،ط:سعید)
وفیہ ایضا:
"(والأحق بالإمامة) تقديما بل نصبا مجمع الأنهر (الأعلم بأحكام الصلاة) فقط صحة وفسادا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، وقيل واجب، وقيل سنة (ثم الأحسن تلاوة) وتجويدا (للقراءة، ثم الأورع)۔۔۔۔ فإن اختلفوااعتبر أكثرهم؛ ولو قدموا غير الأولى أساءوا بلا إثم.
(قوله ثم الأحسن تلاوة وتجويدا) أفاد بذلك أن معنى قولهم أقرأ: أي أجود، لا أكثرهم حفظا وإن جعله في البحر متبادرا، ومعنى الحسن في التلاوة أن يكون عالما بكيفية الحروف والوقف وما يتعلق بها قهستاني۔۔۔۔(قوله أساءوا بلا إثم) قال في التتارخانية: ولو أن رجلين في الفقه والصلاح سواء إلا أن أحدهما أقرأ فقدم القوم الآخر فقد أساءوا وتركوا السنة ولكن لا يأثمون، لأنهم قدموا رجلا صالحا."
(كتاب الصلاة،باب الإمامة،ج:1،ص:559/557،ط:سعید)
وفیہ ایضا:
"وفي المواقف وشرحه: إن للأمة خلع الإمام وعزله بسبب يوجبه، مثل أن يوجد منه ما يوجب اختلال أحوال المسلمين وانتكاس أمور الدين كما كان لهم نصبه وإقامته لانتظامها وإعلائها، وإن أدى خلعه إلى فتنة احتمل أدنى المضرتين. اهـ."
(کتاب الجھاد،باب البغاۃ،ج:4،ص:264،ط:سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ومن لا يحسن بعض الحروف ينبغي أن يجهد ولا يعذر في ذلك."
(كتاب الصلاة،الفصل الخامس في زلة القاري،ج:1،ص:79،ط:دارالفکر بیروت)
حاشیۃ الطحطاوی علی شرح نور الایضاح میں ہے:
"قال الجلال السيوطي رحمه الله: اختلفوا في الخشوع هل هو من أعمال القلب كالخوف أو من أعمال الجوارح كالسكون أو عبارة عن المجموع قال الرازي الثالث أولى وعن علي رضي الله عنه الخشوع في القلب وعن جماعة من السلف الخشوع في الصلاة السكون فيها وقال البغوي الخشوع قريب من الخضوع إلا أن الخضوع في البدن والخشوع في البدن والبصر والصوت."
(کتاب الصلاۃ ،فصل فی المکروہات،ص:359،ط:دارالکتب العلمیۃ)
المبسوط للسرخسي ميں ہے:
"{فقوله تعالي: فصل لربك وانحر} [الكوثر: 2] قيل المراد منه وضع اليمين على الشمال على النحر، وهو الصدر ولأنه موضع نور الإيمان فحفظه بيده في الصلاة أولى من الإشارة إلى العورة بالوضع تحت السرة، وهو أقرب إلى الخشوع والخشوع زينة الصلاة.ولنا حديث علي ( رضي الله تعالى عنه)."
(كتاب الصلاة ،كيفيةالدخول في الصلاة،ج:1،ص:25،ط:دار المعرفه بيروت)
فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:
"يجب أن يكون إمام القوم في الصلاة أفضلهم في الورع و التقوى و القراءة."
(کتاب الصلاۃ ،باب من أحق بالإمامة؟،ج:1،ص:600،ط:ادارۃالقران)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144602101033
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن