بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’آئندہ اگر میں اس مسجد میں گیا تو میں مسلمان نہیں ہوں گا‘‘ کے الفاظ سے قسم کھانے کا حکم


سوال

مسجد کے منبر سے مو لوی نے جمعہ کے خطبے میں شیعہ کو سرِ عام غلیظ کافر کہا، بلکہ اور نہایت غلط الفاظ کا استعمال بھی کیا، جس پر ایک شخص کو غصہ آیا اور اُس نے یہ کہہ کر قسم اُٹھائی کہ ’’یہ کون ہو تا ہے کسی کے کافر اور مسلمان ہونے کا فیصلہ کرنے والا؟ آئندہ اگر میں اس مسجد میں گیا تو میں مسلمان نہیں ہوں گا‘‘، کچھ عرصہ بعد اُسے احساس ہوا کہ اس میں مسجد کی نہیں، بلکہ خطیب کی غلطی تھی جس نے ایسے الفاظ استعمال کیے، لہذا یہ مسجد جانا ترک نہیں کیا جا سکتا، بلکہ مذکورہ مو لوی کے پیچھے نماز نہیں پڑھوں گا، اور وہ شخص مسجد جا کر باجماعت نماز پڑھنے لگا، تو کیا اُس شخص کی قسم ٹو ٹ گئی؟ اگر ٹو ٹ گئی تو تلافی کیا ہے اور کیا مذکورہ شخص اگر شادی شدہ ہے تو کیا نکاح قائم رہے گا یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے ان الفاظ کے ذریعے سے قسم کھائی کہ ’’آئندہ اگر میں اس مسجد میں گیا تو میں مسلمان نہیں ہوں گا‘‘، پھر وہ شخص اس مسجد میں چلا گیا تو وہ اپنی قسم میں حانث ہوگیا، یعنی اس کی قسم ٹوٹ گئی اور اس پر قسم توڑنے کا کفارہ لازم ہے، اور اگر مذکورہ شخص شادی شدہ ہے تو اس کا نکاح قائم رہے گا۔

قسم کا کفارہ یہ ہے: دس مساکین کو دن اور رات کا کھانا کھلانا،یا ہر  مسکین کو ایک صدقۃ الفطر کے برابر رقم دینا یعنی احتیاطاً دو کلو گندم یا اس کی رقم اور دس مساکین کی طرف سے بیس کلو گندم یا اس کی قیمت کسی ایسے مدرسے میں جمع کرادی جاۓ جہاں مسافر طلبہ رہائش پذیر ہوں، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو پے در پے تین دن روزہ رکھنا ہے۔

تاہم یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہنے والایہ اعتقاد نہ رکھتا ہو کہ مذکورہ جملے کہنے سے کفر لازم آتا ہے، اور اگر حالف اتنا جانتا ہے کہ یہ کفریہ جملہ ہے یعنی اگر وہ مسجد میں گیا تو واقعی میں کافر ہوجائے گا، تو ایسی صورت میں اتنا علم ہونے کے باوجود جب یہ جملہ استعمال کرتا ہو تو اگر وہ مسجد چلا جاتا ہے تو اس کے کفر کا حکم لگایا جائے گا، اور اگر وہ شادی شدہ ہے تو اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا، اور اس پر تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح کے ساتھ ساتھ  توبہ کرنا بھی لازم ہوگا۔

ہدایہ میں ہے:

"(وإن قال إن فعلت كذا فهو يهودي أو نصراني أو كافر تكون يمينا) ؛ لأنه لما جعل الشرط علما على الكفر فقد اعتقده واجب الامتناع، وقد أمكن القول بوجوبه لغيره بجعله يمينا كما تقول في تحريم الحلال. ولو قال ذلك لشيء عقد فعله فهو الغموس، ولا يكفر اعتبارا بالمستقبل. وقيل يكفر؛ لأنه تنجيز معنى فصار كما إذا قال هو يهودي. والصحيح أنه لا يكفر فيهما إن كان يعلم أنه يمين، وإن كان عنده أنه يكفر بالحلف يكفر فيهما؛ لأنه رضي بالكفر حيث أقدم على الفعل."

(كتاب الأيمان، باب ما يكون يمينا وما لايكون يمينا، ج: 2، ص: 319، ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله: ولو قال إن فعلت كذا فهو يهودي أو نصراني أو كافر يكون يمينا) فإذا فعله لزمه كفارة يمين قياسا على تحريم المباح فإنه يمين بالنص، وذلك «أنه صلى الله عليه وسلم حرم مارية على نفسه» ، فأنزل الله تعالى {يا أيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك}، ثم قال {قد فرض الله لكم تحلة أيمانكم}. ووجه الإلحاق أنه لما جعل الشرط وهو فعل كذا علما على كفره، ومعتقده حرمة كفره فقد اعتقده: أي الشرط واجب الامتناع فكأنه قال حرمت على نفسي فعل كذا كدخول الدار. ولو قال دخول الدار مثلا علي حرام كان يمينا فكان تعليق الكفر ونحوه على فعل مباح يمينا إذا عرف هذا، فلو قال ذلك لشيء قد فعله كأن قال إن كنت فعلت كذا فهو كافر وهو عالم أنه قد فعله فهي يمين الغموس لا كفارة فيها إلا التوبة، وهل يكفر حتى تكون التوبة اللازمة عليه التوبة من الكفر وتجديد الإسلام؟ . قيل لا، وقيل نعم؛ لأنه تنجيز معنى؛ لأنه لما علقه بأمر كائن فكأنه قال ابتداء هو كافر.

والصحيح أنه إن كان يعلم أنه يمين فيه الكفارة إذا لم يكن غموسا لا يكفر، وإن كان في اعتقاده أنه يكفر به يكفر فيهما؛ لأنه رضي بالكفر حيث أقدم على الفعل الذي علق عليه كفره، وهو يعتقد أنه يكفر إذا فعله.

واعلم أنه ثبت في الصحيحين عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال «من حلف على يمين بملة غير الإسلام كاذبا متعمدا فهو كما قال» فهذا يتراءى أعم من أن يعتقده يمينا أو كفرا، والظاهر أنه أخرج مخرج الغالب، فإن الغالب ممن يحلف بمثل هذه الأيمان أن يكون من أهل الجهل لا من أهل العلم والخير، وهؤلاء لا يعرفون إلا لزوم الكفر على تقدير الحنث، فإن تم هذا، وإلا فالحديث شاهد لمن أطلق القول بكفره."

(كتاب الأيمان، باب ما يكون يمينا وما لايكون يمينا، ج: 5، ص: 78، ط: دار الفكر بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌وكفارته) ‌هذه ‌إضافة ‌للشرط ‌لأن ‌السبب ‌عندنا ‌الحنث (تحرير رقبة أو إطعام عشرة مساكين) كما مر في الظهار (أو كسوتهم بما) يصلح للأوساط وينتفع به فوق ثلاثة أشهر، و (يستر عامة البدن) فلم يجز السراويل إلا باعتبار قيمة الإطعام."

(کتاب الأیمان، ج: 3، ص: 725، ط: دار الفکر بیروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407102307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں