بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک وقت میں چار قبریں تیار کروانے کا حکم


سوال

ہمارا  تعلق اوکھائی میمن برادری سے ہے اور ہماری برادری کے مرحومین کی تدفین کے لیے قبرستان کی  زمین  مختص ہے ،جہاں پر بلاکسی تفریق کے برادری کے مرحومین کی تدفین کی جاتی ہے،  مسئلہ یہ درپیش ہے کہ بعض اوقات ایک وقت میں دو اور تین اموات ہوجاتی ہیں ،  اور ایک قبر کے تیار ہونے میں تین  سے چار گھنٹے لگتے ہیں ،اگر پہلے سے قبر تیار کرکے نہ رکھی جائے تو عین تدفین کے موقع پر مرحومین کے لواحقین اور تدفین کےلیے آنے والے احباب کو  قبر کے تیار ہونے  میں انتظار کرنے میں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے،لہذاان مسائل کے پیشِ نظر  قبرستان کی انتظامیہ    پہلے سے چار یا پانچ قبریں تیار کروالیتی ہے ،تاکہ اگر بیک وقت ایک سے زائد فوتگیاں ہوں تو  پہلے سے قبر تیار ہونے کی صورت میں ہماری برادری کے لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف اور پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا شریعت کی روشنی میں اس بات کی گنجائش ہے کہ انتظامی امور کے تحت پہلے سے ایک سے زائد قبریں تیار کرالی جائیں جبکہ یہ قبریں کسی فرد کے لیے خاص نہ ہو ۔

2۔کیا شریعت   میں اس بات کی کوئی حقیقت ہے کہ پہلے سے قبریں تیار کی جاتی ہیں ، تو یہ قبریں اپنے اندر مردوں کو بلاتی ہیں اور پہلے سے تیار کرنے کی بناء پر ہی اموات زیادہ  ہوتی ہیں یا  جوانوں کی اموات میں اضافہ ہوتا ہے؟

برائے کرم شریعت کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمادیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں اوکھائی میمن جماعت کے ذمہ دار حضرات جب اپنی قوم کے لوگوں کی سہولت کے لیے یہ اقدام کرتے ہیں کہ حالات پیش نظر ایک وقت میں تین یا چار قبریں  جو کہ کسی کے لیے خاص نہیں ہوتی صرف اس بناء پر تیار کرکے رکھتے ہیں تاکہ شہر میں اوکھائی میمن برادری سے تعلق رکھنے والوں میں  سے ایک سے زائد وفات ہوں تو قبریں پہلے سے تیار ہونے کی وجہ سے   مرحومین کے ورثاء اور لواحقین کو  عین تدفین کے وقت قبر تیار کرنے کی مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے  تو شرعا  آپ کی  جماعت کا یہ اقدام جائز  ہے اس میں شریعت کی رو سے کوئی قباحت نہیں۔بہرحال وقت سے پہلے قبر تیار رکھنےمیں کوئی حرج نہیں ہے۔مولانا محمد یوسف لدھیانوی رح کی کتاب" آپ کے مسائل اور ان کا حل" میں ہے:

"ج… فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں تو یہ لکھا ہے: “پہلے سے قبر اور کفن تیار کرنے میں کچھ حرج اور گناہ نہیں ہے۔” (ج:۵ ص:۴۰۶)

اور کفایت المفتی میں لکھا ہے: “اپنی زندگی میں قبر تیار کرالینا مباح ہے۔”(ج:۴ ص:۳۸)

علامہ شامی نے تاتارخانیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اپنے لئے قبر تیار رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، اور اس پر اجر ملے گا، حضرت عمر بن عبدالعزیز، ربیع بن خشم،اور دیگر حضرات نے ایسا ہی کیا تھا۔ (شامی ج:۲ ص:۲۴۴ مطبوعہ مصر جدید)

(آپ کے مسائل اور ان کا حل ، ج:2، ص:127 )

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

’’ومن حفر قبراً لنفسه قبل موته فلا بأس به ویؤجر علیه، هكذا عمل عمر بن عبد العزیز والربیع بن خیثم وغیرهم‘‘.

(تاتار خانیة،کتاب الصلاۃ ، الجنائز ، القبروالدفن 3/76، رقم: 3769)

ردالمحتار ميں ہے:

’’ويحفر قبراً لنفسه، وقيل: يكره؛ والذي ينبغي أن لايكره تهيئة نحو الكفن بخلاف القبر.
(قوله: ويحفر قبراً لنفسه) في بعض النسخ: وبحفر قبر لنفسه، على أن لفظة حفر مصدر مجرور بالباء مضاف إلى قبر: أي ولا بأس به. وفي التتارخانية: لا بأس به، ويؤجر عليه، هكذا عمل عمر بن عبد العزيز والربيع بن خيثم وغيرهما. اهـ‘‘.

(ردالمحتار، ج:2، ص:244، ط:سعید)

ان فتاوی کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زندگی میں اپنے لیے قبر تیار  کرانے میں کوئی حرج نہیں۔اسی طرح برادری کی سہولت کے لیے برادری کے لیے قبریں تیار رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ مقصد تدفین میں جلدی اور لوگوں کی سہولت ہے۔

2۔ دین اسلام  توہم پرستی کی نفی کرتا ہے اور مسلمانوں کو اپنے عقائد کی اصلاح کی تلقین کرتا ہے ، لہذا ہر مسلمان کا یہ عقیدہ  ہونا چاہیے کہ ہر انسان کی موت کا وقت مقرر ہے ، جس میں  ہی تاخیر ہوگی نہ ہی تقدیم۔قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد مبارک ہے کہ ہر انسان کی موت کا وقت مقرر ہے ، لہذا قبر کا پہلے سے تیار کروانے سے کسی کی موت کا کوئی تعلق نہیں۔جس طرح قبر تیارنہ رکھنے سے کسی کی موت میں تاخیر نہیں ہوسکتی ،اسی طرح تیار رکھنے سے کسی کی موت جلدی بھی نہیں آسکتی۔اگر کوئی قبر پہلے سے تیار رکھی جاتی ہے تو کسی خاص فرد کےلیے  نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی کسی خاص عمر کے لوگوں کے لیے ہوتی ہے بلکہ جس کی قسمت میں وہ قبر لکھی ہوتی ہے ،اسی کی موت آتی ہے اور اسی جگہ اس کی تدفین ہوتی ہے۔

{وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُؤَجَّلًا وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَانُؤْتِهِمِنْهَا وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ}

(سورۃ آل عمران﴿۱۴۵)

ترجمہ: اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مر جائے (اس نے موت کا) وقت مقرر کر کے لکھ رکھا ہے اور جو شخص دنیا میں (اپنے اعمال کا) بدلہ چاہے اس کو ہم یہیں بدلہ دے دیں گے اور جو آخرت میں طالبِ ثواب ہو اس کو وہاں اجر عطا کریں گے اور ہم شکر گزاروں کو عن قریب (بہت اچھا) صلہ دیں گے ﴿۱۴۵﴾

عمدة القاري شرح صحيح البخاری میں ہے:

’’وَذَلِكَ لِأَن الْمَقَابِر وقف من أوقاف الْمُسلمين لدفن موتاهم لَايجوز لأحد أَن يملكهَا‘‘. 

(4/179،عمدۃالقاری فی شرح البخاری)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100792

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں