بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک سے زائد روزہ توڑنے کی صورت میں کفارہ کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص  رمضان میں ایک سے زائد روز ے توڑ دے تو ان کے کفارہ کی کیا  ترتیب ہے؟

جواب

رمضان کا روزہ بلاعذر جان بوجھ کر چھوڑ دینا یا رکھ کر توڑدینا انتہائی محرومی کی بات ہے، بلاعذر چھوڑے گئے روزوں کی قضا ضروی ہے اور توبہ و استغفار بھی ضروری ہے اور رمضان کا روزہ رکھ کر جان بوجھ کربلا عذر  توڑنے کی صورت میں قضا  کے ساتھ کفارہ بھی لازم ہوگا۔

کفارہ میں تفصیل یہ ہے کہاگر جماع کے علاوہ دیگر وجوہات (مثلاً کھانا ،پینا  وغیرہ )  کی وجہ سے متعدد کفارے لازم ہوئے تو سب کا ایک  ہی کفارہ کافی ہے چاہے  وہ ایک رمضان کے ہوں یا متعدد رمضان کے ۔اور اگر جماع کی وجہ سے متعدد کفارے لازم ہوئےتواگر ایک رمضان کے متعدد کفارے لازم ہوئے تو ایک کفارہ کافی ہے اور اگر متعد رمضانوں کے کفارے لازم ہوئے تو ہر رمضان کے روزوں کا الگ الگ کفارہ ادا کرنا ضروری ہے ۔

کفارہ یہ ہے کہ دو ماہ مسلسل روزے رکھے جائیں اور اگرعمر رسیدگی  کی وجہ سے ضعف و کمزوری ہو گئی ہو   یا ایسا دائمی مرض ہو، جس کی وجہ سے  دو ماہ مسلسل روزے رکھنے کی بالکل استطاعت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے۔

جان بوجھ کر روزہ توڑنے کی صورت میں  کفارہ کے ساٹھ روزوں کے ساتھ ایک روزہ قضا کا بھی رکھنا ضروری ہے،  یعنی کل اکسٹھ (۶۱ ) روزے رکھنے ہوں گے اور  جب کفارہ  کے ساٹھ روزے رکھے تو  بلا ناغہ مسلسل ساٹھ روزے رکھنا واجب ہے،اگر درمیان میں ناغہ کیا اور صرف ایک ہی دن کا روزہ نہیں رکھا تو بھی نئے سرے سے دوبارہ روزے رکھنا واجب ہوگا ،پچھلے روزوں کا اعتبار نہ ہوگا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وقضوا لزومًا ما قدروا بلا فدية و بلا ولاء لأنه على التراخي."

(رد المحتار،کتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة۔۔۔)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" إذا أكل متعمدًا ما يتغذى به أو يتداوى به يلزمه الكفارة."

(الفتاویٰ الهندية ص 76، الناشر دار الفكر،سنة النشر 1411هـ 1991م)

فتاوی شامی میں ہے:

" فيعتق أولًا فإن لم يجد صام شهرين متتابعين فإن لم يستطع أطعم ستين مسكينًا."

(رد المحتار،کتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم۔۔۔)

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"(قوله: ككفارة المظاهر) مرتبط بقوله: وكفر أي مثلها في الترتيب فيعتق أولًا فإن لم يجد صام شهرين متتابعين فإن لم يستطع أطعم ستين مسكينًا؛ لحديث الأعرابي المعروف في الكتب الستة، فلو أفطر ولو لعذر استأنف."

(كتاب الصوم باب ما يفسد الصوم وما لايفسده رد المحتار2/ 412ط:سعيد)

وفيه أيضًا:

"ولو تكرر فطره ولم يكفر للأول يكفيه واحدة و لو في رمضانين عند محمد، و عليه الاعتماد بزازية ومجتبى وغيرهما، واختار بعضهم للفتوى أن الفطر بغير الجماع تداخل وإلا لا."

(كتاب الصوم باب ما يفسد الصوم وما لايفسده رد المحتار2/ 413ط:سعيد)

وفي بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:

"ولو جامع في رمضان متعمدًا مرارًا بأن جامع في يوم ثم جامع في اليوم الثاني ثم في الثالث ولم يكفر فعليه لجميع ذلك كله كفارة واحدة عندنا، وعند الشافعي عليه لكل يوم كفارة، ولو جامع في يوم ثم كفر ثم جامع في يوم آخر فعليه كفارة أخرى في ظاهر الرواية، وروى زفر عن أبي حنيفة أنه ليس عليه كفارة أخرى، و لو جامع في رمضانين ولم يكفر للأول فعليه لكل جماع كفارة في ظاهر الرواية."

(كتاب الصوم، فصل في حكم فساد الصوم . 4/ 268ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144206200443

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں