کیایہ حقیقت ہے کہ اگر کسی سے نماز قضا ہو جائے اور وہ اس نماز کو لوٹا بھی دے ،یعنی قضابھی کرے اور توبہ بھی کرے تو بھی اس کو دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال سزا جہنم میں ملے گی ؟مجھ سے لاعلمی کی وجہ سے بہت نمازیں قضا ہو چکی ہیں ،مجھے اچھی طرح تو یاد نہیں ہے، لیکن جب میں بارہ تیرہ سال کا تھا تو اس عرصے سے مجھے دو تین رات بعد احتلام ہوتا تھا اور مجھے لگتا تھا کہ یہ مجھ سے پیشاب کے قطرے گرتے ہیں، احتلام اور اس قسم کے مسائل مجھے معلوم نہیں تھے، اب میں تقریباً تین سال کی نمازوں کی قضا کر رہا ہوں اور میں نے توبہ بھی کرلی ہے اور اب میں پانچوں نمازوں کو باجماعت ادا کرتا ہوں ،اب پوچھنا یہ ہے کہ مجھے بھی یہ سزا ملے گی یا نہیں ؟
سوال میں درج روایت کی کوئی سند معتمد کتب احادیث میں نہیں مل سکی ، بعض کتابوں میں مذکورہ روایت بلا سند مروی ہے،نیز ذخیرہ احادیث میں اس روایت کی ایسی مؤیدات بھی نہیں مل سکے کہ جن کی بنیاد پر روایت کے معنی کو درست قرار دیا جاسکے۔
سائل سے جوگزشتہ زمانے میں نمازیں قضاہوئیں توسائل سچے دل سےاپنے اس پر توبہ واستغفار کرےاور اس کےساتھ وہ ان مذکورہ نمازوں کی قضابھی پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اس گناہ کو معاف کردے گا اورآئندہ کے لیے نماز کوباجماعت ادا کرنے کا پکا عزم کرے ۔
مذکورہ روایت درج ذیل کتابوں میں بلا سند منقول ہے:
۱- امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی رحمہ اللہ (المتوفى: 505ھ) نے اسے بغیر کسی سند کے نقل فرمایا ہے :
"وقال عليه السلام: من ترك صلاة حتى مضت وقتھا، ثم قضاها عذب في النار حقبًا، والحقب ثمانون سنة، كل سنة ثلاث مائة وستون يومًا، كل يوم ألف سنة مما تعدون."
" ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص نماز کو چھوڑ دے یہاں تک اس کا وقت نکل جائے ، پھر اسے قضا کر لے، (گو وہ بعد میں پڑھ بھی لے، پھر بھی اپنے وقت پر نہ پڑھنے کی وجہ سے) وہ ایک حُقب جہنم میں جلے گا، اور حقب کی مقدار اسی برس کی ہوتی ہے، اور ایک برس تین سو ساٹھ دن کا، اور (قیامت کا) ایک دن ایک ہزار برس کے برابر ہوگا۔ (اس حساب سے ایک حقب کی مقدار دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس ہوئی)"۔
اور پھر امام غزالی رحمہ اللہ نے اس کی کچھ تشریح بھی درج الفاظ میں کی ہے :
"يعني ترك الصلاة إلى وقت القضاء إثم، لو عاقب الله تعالى به يكون جزاءه هكذا، ولكن الله تعالى يتكرم بأن لا يجازي به إذا تاب عنه".
(مشكاة الأنوار في لطائف الأخبار من المواعظ والنصايح للغزالي، الباب الخامس والعشرون في بيان عقوبة ترك الصلاة، ص:205، ط: المطبعة الكريمية بلدة قزان، 1911ء)
٢- شیخ احمد بن محمد الرومی الحنفی رحمہ اللہ (المتوفی:۱۰۴۳ھ) نے اپنی مشہور کتاب ’’مجالس الأبرار‘‘ میں بغیر سند وحوالہ کے صیغہ مجہول کے ساتھ یہ روایت ذکر فرمائی ہے:
"لما رُوي أنه صلى الله عليه وسلم قال:من ترك الصلاة حتى مضى وقتھا، ثم قضى عُذِّب في النار حقبًا، والحقب ثمانون سنة، والسنة ثلثمائة وستون يومًا، كل يوم كان مقدار ألف سنة".
(مجالس الأبرار، المجلس الحادي والخمسون، ص:398، ط:سهيل أكادمي لاهور،1430ھ)
٣- امام غزالی رحمہ اللہ سے أبو الفداء إسماعيل حقی بن مصطفى حنفی رحمہ اللہ (المتوفى: 1127ھ) نے اپنی تفسیر "روح البيان"میں دو مقامات پر درج ذیل الفاظ کے ساتھ یہ روایت نقل فرمائی ہے:
1۔قال النبي صلى الله عليه وسلم: من ترك صلاة حتى مضى وقتها عذب في النار حقبا، والحقب ثمانون سنة، كل سنة ثلاثمائة وستون يوما، كل يوم الف سنة مما تعدون".
۲۔و في الحديث: من ترك صلاة حتى مضى وقتها، ثم قضى عذب فى النار حقبا، والحقب ثمانون سنة، كل سنة ثلاثمائة وستون يوما، كل يوم الف سنة مما تعدون".
(روح البيان: (1/34) و(2/276)، ط:دار الفكر،بيروت)
۴- حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ ( المتوفی 1034ھ) نے بھی اپنے مکتوبات میں اس روایت کو بغیر کسی سند وحوالہ کے نقل فرمایا ہے، حضرت لکھتے ہیں:
"ودر اخبار آمدہ است کہ کسے کہ یک نماز فرض بعمد قضا کند یک حقبہ او را در دوزخ عذاب کنند"۔
(مکتوبات امام ربانی ، مکتوب نمبر: 266، (1/ 484)، ط: ایچ ایم سعید کراچی)
ترجمہ: "روایات میں آتا ہے کہ جس نے ایک فرض نماز جان بوجھ کر قضا کی اسے ایک حقب دوزخ میں عذاب ہوگا" ۔
۵- شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نوّراللہ مرقدہ (المتوفی :۱۴۰۲ھ)نے اس روایت کو اپنی کتاب ’’فضائل ِاعمال ‘‘ کے رسالہ ’’فضائل ِنماز‘‘ میں شیخ احمد بن محمد الرومی حنفی رحمہ اللہ (المتوفی:۱۰۴۳ھ) کی "مجالس الأبرار" کے حوالہ سے نقل فرما کر لکھا ہے :"کذا في مجالس الأبرار" یعنی یہ روايت مجالس الابرار سے نقل کی گئی ہے ۔
اور اس کے بعد شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ نے کچھ توضیحی کلمات بھی درج فرمائے ہیں ،جس سے اس روایت کا درجہ معلوم کیا جا سکتا ہے:
"قلت: لم أجده فيما عندي من كتب الحديث، إلا أن مجالس الأبرار مدحه شيخ مشايخنا الشاه عبد العزيز الدهلوي رحمه الله".
ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ میرے پاس جو حدیث کی کتب موجود ہیں، ان میں مجھے یہ حدیث نہیں مل سکی، البتہ اتناضرور ہے کہ ہمارے شیخ المشائخ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ’’مجالس الابرار‘‘ نامی کی تعریف فرمائی ہے۔
(فضائلِ اعمال، رسالہ: فضائل ِنماز، باب اوّل، (۳۳۰) ،ط/کتب خانہ فیضی، لاہور)
لہذا جب تک اس کی کوئی معتبر سند نہ مل جائے، تب تک اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرکے بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407101479
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن