بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک میت پر دو مرتبہ نماز جنازہ پڑھنا


سوال

ایک شخص کا انتقال ہوا، جو شہر کا رہائشی تھا، ان کے بیٹوں اور رشتہ داروں نے اس کا  جنازہ اپنے آبائی گاؤ ں میں رکھوایا ،جس کا ٹائم  10 بجے کا تھا، اس کے بعد شہر میں اس کے محلے داروں نے اس کا جنازہ اپنے محلے میں رکھوانے کی درخواست کی،  میت کے ورثاء نے علماء سے رابطہ کیا تو علماء نے اس کی اجازت دی ،علماء نے فرمایا ایک شخص ایک جنازے میں شریک ہوسکتا ہے، پھر ورثاء نے جنازہ  محلے میں 8:30 بجے پڑھا، جس میں ایک وارث نے شرکت کی اور باقی ورثاء نے جنازہ اپنے آبائی گاؤں میں پڑھا ،اس تمام معاملے کو دیکھ کرلوگوں نے بہت تشویش کا اظہار  کیا،آپ سے درخواست ہے کہ اس مسئلہ کو واضح فرمائیں اور اس کی شرائط کا بھی ذکر فرمائںں اور اس کے دلائل کا بھی ذکر فرمائیں !

جواب

 واضح رہے  کہ اگر میت کے اولیاء  نے  نماز جنازہ پڑھ  لی یا ان کی اجازت سےنماز جنازہ    پڑھائی گئی  تو نمازِ جنازہ ادا ہو گئی اور فر ضِ کفایہ ادا ہوگیا۔ دوبارہ جنازہ  ادا کرنا درست نہیں ؛ اس لیے کہ  نماز جنازہ میں اصل یہ ہے کہ ایک مرتبہ ہی پڑھی جائے ،ایک سے  زیادہ مرتبہ پڑھنا اصلًا مشروع نہیں ،لیکن  اگر  میت کے ولی نے نمازِ جنازہ نہیں پڑھی  اور نہ ہی اس کی اجازت سے پڑھی گئی، بلکہ ایسے لوگوں نے پڑھی جن کو اس میت پر ولایت کا حق نہیں  تو ولی اس کی نمازِجنازہ پڑھ سکتا ہے، لیکن اس دوسری جماعت میں صرف وہ لوگ شریک ہوں گے جو پہلی میں شریک نہیں تھے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر پہلی  مرتبہ نماز جنازہ میں میت  کا ولی شریک  تھا یا ولی کی اجازت سے  نماز جنازہ ادا کی گئی تھی تو     دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا درست نہیں تھا  خواہ پہلی مرتبہ تمام اولیاء شریک نہ ہوئے ہوں۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"و لو صلّى علیه الولي، و للمیت أولیاء أخر بمنزلته، لیس لهم أن یعیدوا، کذا في الجوهرة النیرة."

(الفتاویٰ الهندیة، کتاب الصلاة، الباب الحادي و العشرون في الجنائز، الفصل الخامس في الصلاة على المیت، (1/164) ط: رشیدیه کوئٹه)

وفي الدر المختار:

"فإن صلی غیره أي غیر الولي ممن لیس له حق التقدم علی الولي و لم یتابعه الولي أعاد الولي ولو علی قبره".

(الدرالمختار ، باب صلاة الجنائز، ۲/۲۲۲ ط سعید)

وفي مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح:

"ولمن له حق التقدم أن يأذن لغيره فإن صلى غيره أعادها إن شاء ولا يعيد معه من صلى مع غيره.

ولمن له حتى التقدم أن يأذن لغيره" لأن له إبطال حقه وإن تعدد فللثاني المنع والذي يقدمه الأكبر أولى من الذي يقدمه الأصغر "فإن صلى غيره" أي غير من له حق التقدم بلا إذن ولم يقتد به "أعادها" هو "إن شاء" لعدم سقوط حقه وإن تأدى الفرض بها "ولا" يعيد "معه" أي مع من له حق التقدم "من صلى مع غيره" لأن التنفل بها غير مشروع كما لا يصلي أحد عليها بعده وإن صلى وحده." (ص: 220الناشر: المكتبة العصرية)

وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح:

"أما إذا أذن له أو لم يأذن ولكن صلى خلفه فليس له أن يعيد لأنه سقط حقه بالأذن أو بالصلاة مرة وهي لا تتكرر ولو صلى عليه الولي وللميت أولياء آخرون بمنزلته ليس لهم أن يعيدوا لأن ولاية الذي صلى متكاملة."

 (ص: 591الناشر: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201159

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں