بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مرد کا یہ کہنا کہ اس لڑکے نے اپنی دادی کی چھاتی چوسی ہے سے رضاعت کا حکم


سوال

میری والدہ کا 2005 ء میں انتقال ہوگیاہے ،انہوں نےاپنی زندگی میں کہا تھا کہ میں نے اپنے پوتے (میرے بڑے بھائی کے بیٹے) کو تقریبا 6 یا 8 ماہ تک چھاتی پلائی  ہے،اس وقت میرا بھائی (والدہ کا چھوٹا بیٹا) 6 یا 7 سال کا تھا ،والدہ کہتی تھیں کہ تم 2 بیٹوں اور 4 بیٹیوں کی بیٹیاں میرے اس پوتے پر حرام ہیں (کیونکہ یہ تمہارا رضاعی بھائی ہے)۔

اب میں اس پوتے کو (بڑے بھائی کے بیٹے کو ) اپنی بیٹی دینا چاہتاہوں تو کیا یہ جائز ہے؟

وضاحت :والدہ کی عمر اس وقت (دودھ پلاتے وقت) تقریبا 50 سال تھی ،والدہ نے یہ نہیں بتایا کہ بچے نے دودھ پیا یا نہیں ،بلکہ وہ یہ کہتی تھیں یہ میری چھاتی چوس رہاہے،نیز جب اس لڑکے اور لڑکی کی بات طے ہورہی تھی تو کسی نے یہ بات نہیں بتائی ،کچھ عرصہ بعد لڑکی کے والد نے یہ بات سب کو بتائی اور والدہ نے یہ بات صرف اس بیٹے کو بتائی تھی ۔ابھی تاحال  لڑکا  لڑکی کی شادی نہیں ہوئی ہے۔

جواب

 واضح رہے کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے دو عادل مرد  یاایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی ضروری ہے، صرف ایک مرد ، یادوعورتوں یاکسی ایک عورت کا قول رضاعت کے ثبوت کے لیے کافی نہیں ہے۔نیز رضاعت کے ثبوت کے لئے بچہ کا چھاتی سے دودھ پینا بھی ضروری ہے،صرف چھاتی منہ میں لینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی ،اسی طرح اگر دودھ پینے یا نہ پینے سے متعلق شک ہوتو اس سے بھی حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی ۔

لہذا  صورتِ مسئولہ میں  صرف لڑکی کے والد  کا یہ کہنا  کہ مذکورہ لڑکے نے اپنی دادی کی چھاتی چوسی ہے ،رضاعت کے ثبوت کے لئے کافی نہیں ہے،شرعا ایک مرد کی اتنی بات سے حرمت رضاعت  ثابت نہیں ہوگی،اگر مذکورہ لڑکا اور لڑکی  شادی کرنا چاہتے ہیں تو  اس کی اجازت ہے۔

تاہم اگر غالب گمان یہ ہوکہ  لڑکی کا والد سچ کہہ رہا ہے اور لڑکے کو اس کی دادای نے دودھ پلایا تھااور لوگوں میں یہ بات معروف اور مشہور ہوگئی ہو   تو احتیاطاً یہ  نکاح نہیں کرنا  چاہیے۔

 حدیث شریف میں  ہے:

"وعن عقبة بن الحارث : أنه تزوج ابنة لأبي إهاب بن عزيز فأتت امرأة فقالت : قد أرضعت عقبة والتي تزوج بها فقال لها عقبة : ما أعلم أنك قد أرضعتني ولا أخبرتني فأرسل إلى آل أبي إهاب فسألهم فقالوا : ما علمنا أرضعت صاحبتنا فركب إلى النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة فسأله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " كيف وقد قيل ؟ " ففارقها عقبة ونكحت زوجا غيره."

(مشکاة المصابيح،كتاب النكاح ، باب المحرمات:2/ 218،ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ:"حضرت عقبہ بن حارث  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے نکاح کیا، پھر ایک عورت آئی وہ کہنے لگی کہ میں نے عقبہ اور اس عورت کو جس سے اس نے نکاح کیا ہے دودھ پلایا ہے، عقبہ نے اس عورت کو کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ تونے مجھے دودھ پلایا اور تو نے مجھے اس سے پہلے اس کی اطلاع بھی نہیں دی ، پھر انہوں نے ایک  شخص کو ابو اہاب کے پاس بھیجا اور اس سے پوچھا کہ تمہاری لڑکی کو کیا اس عورت نے دودھ پلایا ہے ، انہوں نے جواب دیا  ہمیں معلوم نہیں  کہ اس عورت نے ہماری لڑکی کو دودھ پلایا ہے یا نہیں ،چنانچہ عقبہ اسی وقت سوار ہو کر مدینہ منورہ حضورﷺ کی خدمت میں پہنچے اور اس کا حکم آپ ﷺسے دریافت کیا، تو آ پ ﷺ  نے فرمایا کہ تو اس عورت کو کس طرح  نکاح میں رکھے گا، جب کہ اس کے بارے میں یہ کہہ دیاگیا کہ وہ تیری دودھ شریک بہن ہے، تو عقبہ نے اس عورت کو جداکردیا،اس عورت نے دوسرے خاوند سے نکاح کرلیا۔"(مظاہر حق)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الرضاع يظهر بأحد أمرين أحدهما الإقرار والثاني البينة كذا في البدائع ولا يقبل في الرضاع إلا شهادة رجلين أو رجل وامرأتين عدول."

(كتاب الرضاع:1/ 347،دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويثبت به) ولو بين الحربيين بزازية (وإن قل) إن علم وصوله لجوفه من فمه أو أنفه لا غير، فلو التقم الحلمة ولم يدر أدخل اللبن في حلقه أم لا لم يحرم لأن في المانع شكًّا، ولوالجية.

(قوله: فلو التقم إلخ) تفريع على التقييد بقوله إن علم. وفي القنية: امرأة كانت تعطي ثديها صبية واشتهر ذلك بينهم ثم تقول لم يكن في ثديي لبن حين ألقمتها ثدي ولم يعلم ذلك إلا من جهتها جاز لابنها أن يتزوج بهذه الصبية. اهـ. ط. وفي الفتح: لو أدخلت الحلمة في في الصبي وشكت في الارتضاع لا تثبت الحرمة بالشك."

(رد المحتار،کتاب الرضاع،3 / 212،ط:سعید)

خلاصۃ الفتاوی میں ہے:

"ولا يجوز شهادة امرأة واحدة على الرضاع أجنبية كانت أو أم أحد الزوجين، فإن وقع فى قلبه صدق المخبر فالأفضل أن يتنزه قبل العقد و بعده يسعها المقام معه حتى يشهد على ذلك رجلان أورجل وامرأتان عدول، ولا يقبل شهادة النساء وحدهن."

(كتاب النكاح،فصل الرابع فى الرضاع:2/11،ط:رشيدية)

فتاوی تنقیح الحامدیہ میں ہے:

 "(سئل) في شهادة النساء وحدهن على الرضاع هل تقبل؟ (الجواب) : حجة الرضاع حجة المال وهو شهادة عدلين أو عدل وعدلتين ولا يثبت بشهادة النساء وحدهن لكن إن وقع في قلبه صدق المخبر ترك قبل العقد أو بعده كما في البزازية.(أقول) : أي ترك احتياطا."

 (كتاب النكاح ، باب الرضاع :1/ 35،ط:دارالمعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411101391

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں