بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک گھر میں کئی لوگ صاحبِ نصاب ہوں تو کیا سب کی طرف سے ایک قربانی کافی ہے؟


سوال

ایک گھر میں ایک باپ اور تین  بیٹے ہیں ،سب صاحبِ  نصاب ہیں اور شادی شادہ ہیں ،ان سب پر قربانی واجب ہے یا ایک پر ؟

جواب

ہر صاحبِ نصاب عاقل بالغ مسلمان کے ذمے   قربانی کرنا واجب ہے ، اگر ایک گھر میں متعدد صاحبِ نصاب افراد ہوں تو ایک  قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی، بلکہ گھر میں رہنے والے ہر صاحبِ نصاب شخص پر الگ الگ قربانی کرنا لازم ہوگی، کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر صاحبِ نصاب پر مستقل علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ قربانی ایک عبادت ہے، لہٰذا دیگر عبادات (نماز ، روزہ، حج، زکاۃ ) کی طرح قربانی بھی ہر مکلف کے ذمہ الگ الگ واجب ہوگی۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا عمل مبارک بھی یہ تھا کہ آپ ﷺ اپنی قربانی الگ فرمایا کرتے تھے اور ازواجِ مطہرات کی طرف سے الگ قربانی فرمایا کرتے تھے، اور آپ ﷺ کی صاحب زادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قربانی مستقل طور پر ہوتی تھی، چنانچہ اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ ایک قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہے۔

لہذا   گھر میں متعدد صاحبِ نصاب افراد ہونے کی صورت میں تمام گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ گھر کے ہر صاحبِ نصاب فرد پر اپنی  اپنی قربانی کرنا واجب اور لازم ہے، گھر کے کسی ایک فرد کے قربانی کرنے سے باقی افراد  کے ذمہ سے  واجب قربانی ساقط نہیں ہوگی، ہاں اگر ایک بڑا جانور لے کر اس میں گھر کے مذکورہ افراد (والد اور اس کے تین بیٹے) اپنی واجب قربانی کے لیے حصے متعین کرکے شریک ہوجائیں تو ایک بڑا جانور چار آدمیوں کی طرف سے کافی ہوگا، البتہ یہ ضروری ہوگا کہ ہر ایک کی طرف سے شامل کردہ رقم جانور کی مجموعی قیمت کے ساتویں حصے سے کم نہ ہو۔

سنن الترمذي ت شاكر (4/ 89):

"حدثنا قتيبة قال: حدثنا مالك بن أنس، عن أبي الزبير، عن جابر قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحديبية البدنة عن سبعة، والبقرة عن سبعة». هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول سفيان الثوري، [ص:90] وابن المبارك، والشافعي، وأحمد".

سنن الترمذي ت شاكر (4/ 91):

"حدثنا يحيى بن موسى قال: حدثنا أبو بكر الحنفي قال: حدثنا الضحاك بن عثمان قال: حدثني عمارة بن عبد الله قال: سمعت عطاء بن يسار يقول: سألت أبا أيوب الأنصاري: كيف كانت الضحايا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: «كان الرجل يضحي بالشاة عنه وعن أهل بيته، فيأكلون ويطعمون حتى تباهى الناس، فصارت كما ترى». هذا حديث حسن صحيح، وعمارة بن عبد الله مديني، وقد روى عنه مالك بن أنس، والعمل على هذا عند بعض أهل العلم، وهو قول أحمد، وإسحاق، واحتجا بحديث النبي صلى الله عليه وسلم أنه ضحى بكبش، فقال: «هذا عمن لم يضح من أمتي». وقال بعض أهل العلم: لاتجزي الشاة إلاعن نفس واحدة، وهو قول عبد الله بن المبارك، وغيره من أهل العلم".

سنن الترمذي ت شاكر (4/ 100):

"عن جابر بن عبد الله قال: شهدت مع النبي صلى الله عليه وسلم الأضحى بالمصلى، فلما قضى خطبته نزل عن منبره، فأتي بكبش، فذبحه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، وقال: «بسم الله، والله أكبر، هذا عني وعمن لم يضح من أمتي»".

سنن ابن ماجه (2/ 1044):

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من كان له سعة، ولم يضح، فلايقربن مصلانا»".

سنن ابن ماجه (2/ 1047):

" عن أبي هريرة، قال: «ذبح رسول الله صلى الله عليه وسلم، عمن اعتمر من نسائه في حجة الوداع بقرة بينهن»".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 70):

"وأما قدره فلا يجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لايجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس.

فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا يذبح من أمته فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام؟

(فالجواب) أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته، لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء.

وقال مالك - رحمه الله -: يجزي ذلك عن أهل بيت واحد - وإن زادوا على سبعة -، ولا يجزي عن أهل بيتين - وإن كانوا أقل من سبعة -، والصحيح قول العامة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: «البدنة تجزي عن سبعة والبقرة تجزي عن سبعة». وعن جابر - رضي الله عنه - قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة من غير فصل بين أهل بيت وبيتين»؛ ولأن القياس يأبى جوازها عن أكثر من واحد؛ لما ذكرنا أن القربة في الذبح، وأنه فعل واحد لايتجزأ؛ لكنا تركنا القياس بالخبر المقتضي للجواز عن سبعة مطلقاً فيعمل بالقياس فيما وراءه؛ لأن البقرة بمنزلة سبع شياه، ثم جازت التضحية بسبع شياه عن سبعة سواء كانوا من أهل بيت أو بيتين فكذا البقرة". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200478

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں