بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک گائے جس کی مالیت ایک لاکھ سے زائد ہے کا مالک مستحقِ زکات ہے یا نہیں؟


سوال

میرے پاس ایک گائے ہے، جس کی ما لیت ایک لاکھ یا اس سے زیادہ ہے، جو کہ میں نے صرف گھر کے دودھ وغیرہ کی ضرورت کے لیے  رکھی ہے، کیا یہ گائے حوائجِ اصلیہ میں سے ہے یا نہیں ؟کیا میں زکات  لینے کا حق دار ہوں؟ 

جواب

 مذکورہ گائے کی وجہ  سے سائل صاحبِ نصاب نہیں ہوگا ،اس لیے کہ گائے پر زکاۃ کے واجب ہونے کے لیے  ضروری ہے  وہ  سال کے اکثر حصہ میں جنگل بیابان میں خود چرکر گزارا کرتی  ہوں، اگر آدھے سال یا اس سے کم چرکر گزارا کرتی ہوں اور باقی سال میں گھر میں ان کو چارہ  دیا جاتا ہو تو زکاۃ واجب نہیں ہوتی ،اسی طرح   نصاب کا پورا ہونا بھی  ضروری ہے،  اور گائے کا نصاب یہ ہے کہ وہ  30 کے عدد کو پہنچ جائیں ،  جب تک 30 گائے نہ ہوں تو 30 سے کم پر زکاۃ نہیں ہے۔لہذا معلوم ہوا کہ سائل مذکورہ گائے کی وجہ سے صاحب نصابِ  نہیں ہے۔

  اب اگر سائل  کے پاس اس گائے کے علاوہ اس  کی بنیادی ضرورت  و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان، گھریلو برتن، کپڑے وغیرہ)سے زائد،  نصاب کے بقدر  (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر) مال یا سامان موجود نہیں ہے   اور سائل  سید/ عباسی بھی نہیں ہے  تو اس صورت میں سائل  زکاۃ کا مستحق ہے، سائل کے لیے ضرورت کے مطابق زکاۃ لینا جائز ہے؛  بصورتِ دیگر زکاۃ کا حق دار نہ ہوگا۔

قرآن مجید میں ہے:

{إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ... الآية}[التوبة: 60]

وفي الفتاوى الهندية:

"تجب الزكاة في ذكورها، وإناثها، ومختلطهما والسائمة هي التي تسام في البراري لقصد الدر والنسل والزيادة في السمن والثمن حتى لو أسيمت للحمل والركوب لا للدر والنسل فلا زكاة فيها كذا في محيط السرخسي."

 (1/ 176ط:دار الفكر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200266

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں