بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک درہم کے بقدر نجاست معاف ہونے کا مطلب


سوال

 کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں:

یہ جو قانون ہے کہ نجاست بقدرِ درہم معاف ہے، یہ کس حالت میں ہے؟ مطلب اگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ نجاست لگی ہوئی ہے، جو درہم سے کم ہے،تو کیا ایسے کپڑے میں نماز پڑھنا جائز ہے؟ براہ مہربانی اس سےآگاہ فرمائیں!

جواب

 واضح رہے کہ نجاستِ غلیظہ ایک درہم کے بقدر معاف ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اتنی مقدار اگر بدن یا کپڑوں پر لگی رہ گئی اور پتا نہ چلا تو وہ معاف ہے اور اس حالت میں پڑھی گئی نماز ادا ہوجائے گی، لیکن اگر نجاست کے لگنے کا علم ہو اور اس کو دھونے میں حرج نہ ہو تو اگر وہ ایک درہم سے کم کم ہو تو اُسے دھونا بہتر اور احتیاط پر مبنی ہے، اور اگر ایک درہم کی مقدار کے برابر ہو تو علم ہوتے ہوئے اس کے ساتھ نماز ادا کرنا مکروہِ تحریمی ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"(و) عفي ... (وبول انتضح كرءوس إبر)".

وفي الرد:

"فرءوس الإبر تمثيل للتقليل، كما في القهستاني عن الطلبة، لكن فيه أيضًا عن الكرماني: أن هذا ما لم ير على الثوب، وإلا وجب غسله إذا صار بالجمع أكثر من قدر الدرهم".

(الدر المختار مع رد المحتار 1/322، ط: سعيد)

وفيه أيضًا:

"وقد نقله أيضاً في الحلية عن الينابيع، لكنه قال بعده: والأقرب أن غسل الدرهم وما دونه مستحب مع العلم به والقدرة على غسله، فتركه حينئذ خلاف الأولى، نعم الدرهم غسله آكد مما دونه، فتركه أشد كراهةً كما يستفاد من غير ما كتاب من مشاهير كتب المذهب. ففي المحيط: يكره أن يصلي ومعه قدر درهم أو دونه من النجاسة عالماً به؛ لاختلاف الناس فيه". (1/317)

 فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144111200506

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں