بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک بیوی چار بیٹے اور تین بیٹیوں میں زمین کی تقسیم


سوال

چار  بیٹے ، تین بیٹیاں اور ایک بیوی کے درمیان زمین کی تقسیم کیسے ہوگی؟

جواب

اگر  زندگی میں تقسیم کرنے کے حوالے سے سوال ہے تو زندگی میں تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مذکورہ شخص  اپنی ضرورت کے لیے جتنا  مال رکھنا چاہے  رکھ لے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے،اس کے بعدمذکورہ شخص  اپنی بیو ی کو   زمین کے  آٹھویں حصہ کے بقدر دے دے، پھر باقی زمین اپنے بچوں میں برابری کے ساتھ تقسیم کردے، بیٹے اور بیٹیوں کو برابر برابر تقسیم کردے،یعنی جتنا ایک بیٹے کو دے اتنا ہی ایک بیٹی کو دے، بلا وجہ کمی پیشی کرنا  یا کسی کو محروم کرنا جائز نہیں، البتہ  کسی بیٹے یا بیٹی کو کسی معقول وجہ کی بنا پر بنسبت اوروں کے کچھ زیادہ دے سکتا ہے، یعنی کسی کی زیادتِ شرافت و دینداری کی بنا پر، یا خدمت گزاری کی بنا پر یا غریب ہونے کی بنا پر  بنسبت اوروں کے کچھ زیادہ دے سکتا ہے۔

اور  جو کچھ جس کو دیا جائے اس میں  تقسیم کر کے مالکانہ قبضہ کے ساتھ دینا ضروری ہے،محض نام کردینا ملکیت کے لیے کافی نہ ہو گا۔

اور اگر سوال وراثت سے متعلق ہے، یعنی کسی شخص کا انتقال ہوا ہے، ورثاء میں ایک بیوہ، چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں تو اس صورت میں تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہسب سے پہلے مرحوم  کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے   حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے اور اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ  ہو تو قرضہ کی ادائیگی کے بعد،  اگر مرحوم نے  کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعد باقی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو اٹھاسی (۸۸) حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سےمرحوم کی بیوہ کو گیارہ(۱۱) حصے، ہر بیٹے کو چودہ (۱۴ ) حصے اور ہر بیٹی کو سات (۷) حصے ملیں گے۔

وفي الفتاوى الهندية:

 ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض.

(4/ 374ط:دار الفکر)

 وفي الفتاوى الهندية :

ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية.

 (4/ 391ط:دار الفکر) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112200816

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں