بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر قبضہ کے ہبہ اور ترکہ کی تقسیم کا حکم


سوال

ہمارے والدصاحب کا انتقال 2001 میں ہوا تھا،ورثاء میں پانچ بیٹے اور ایک بیٹی تھی، مرحوم کی بیوی اور والدین کا نتقال ان کی زندگی میں ہواتھا،ترکہ کی تقسیم 2008 میں زبانی طور پر ہوئی تھی،  مگر اس پر عمل نہیں ہواتھا  اور اس میں بیٹی کو بھی حصہ نہیں دیا گیا تھا،پھر 2010 میں ہماری بہن کا انتقال ہوا،ورثاء میں شوہر،تین بیٹے،دو بیٹیاں ہیں،پھر 2018 میں ہمارے ایک بھائی کا انتقال ہوا،ورثاء میں  بیوہ اور چار بھائی ہیں،میرے والد نےاپنارہائشی گھر مجھے گفٹ کردیا تھا اور والدخود انتقال تک اس میں رہائش پذیر تھے، مکمل قبضہ نہیں دیا تھا،والد کے انتقال کے بعد دو بھائی اس گھر میں رہتے تھے،ان کا آپس میں جھگڑا ہوا تو الگ ہوگئے اور ایک بھائی نےدوسرے سے دو لاکھ روپے بھی لیے، اب سوال یہ ہےکہ:

1:میرے والد نے مجھے جو گھر گفٹ کیا تھا اس کا کیا حکم ہے؟

2:والد کا ترکہ کس طرح تقسیم ہوگا؟

جواب

1۔واضح رہے کہ   جب  کسی کو کوئی چیز دی جاتی ہے یا گفٹ کی جاتی ہے تو اس گفٹ(ہبہ) کے مکمل ہونے کے لیے ضروری ہےکہ وہ چیزاسے مالکانہ اختیارات کے ساتھ قبضے میں دےکر حوالے کی جائے، اور زمین ومکان دیتے وقت تو یہ  بھی ضروری ہے کہ دینے والا اپنا سامان اور رہائش بھی اس جگہ سے ختم کرکے حولے کرے ،تبھی جاکر وہ چیز اس دوسرے آدمی کی ملکیت  بن کر اس کی ہوجاتی ہے،  اور اگر بغیر قبضہ ومالکانہ اختیارات کے کسی کو کوئی چیز دی جائے اور صرف اس کے نام پر کر دی جائے  یا اپنا سامان اس جگہ ومکان سے نہ نکالا ہو تو ایسی صورت میں وہ چیز یا مکان وغیرہ اس کی ملکیت میں  داخل نہیں  ہوتی، بلکہ بدستور دینے والے کی ملکیت میں باقی  رہتی ہے۔

مذکورہ تفصل کی روسے سائل کے والد نے جو گھر سائل کو گفٹ کردیا تھا اور قبضہ نہیں دیا تھا تویہ ہبہ مکمل نہیں ہوا  اور مذکورہ گھر تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا،نیز سائل اور اس کے بھائیوں نے جو زبانی تقسیم کی تھی اور اس میں بیٹی کوحصہ نہیں دیا تھا تو  وہ تقسیم شرعاً معتبر نہیں ہے،بلکہ تمام ورثاء پر لازم ہےکہ دوبارہ شرعی طور پر  تقسیم کرکے  ہروارث کو موجودہ مارکیٹ ویلیوں کے  اعتبار سے اس کا حصہ ادا کریں۔

2۔ سائل کے والد مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہےکہ مرحوم کے ترکہ میں سب سے پہلے ان کے حقوقِ  متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد،اگر اس پر کوئی قرض ہوتو اس کو ادا کرنے کے بعد،اگر اس نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ترکہ کے ایک تہائی حصے میں اسے نافذ کرنے کے بعد باقی جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کے کل352 حصے کرکے مرحوم کے ہرزندہ بیٹے کو76 حصے، مرحوم کی مرحومہ بیٹی کے شوہر کو8 حصے،ہر بیٹے کو6حصے، ہر بیٹی کو3 حصےاور مرحوم  بیٹے (سائل کے بھائی) کی بیوہ کو16 حصے دیے جائیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:352/11

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹی
222221
6464646464فوت
۔۔۔۔۔۔۔۔فوت۔۔

میت:32/4۔۔بیٹی مرحومہ۔۔مف1

شوہربیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
13
866633

میت:1/16/4۔۔بیٹا مرحوم۔۔مف4/64

بیوہبھائیبھائیبھائیبھائی
13
43333
1612121212

یعنی سو روپے میں سے  مرحوم کے ہرزندہ بیٹے کو21.590روپے، مرحوم کی مرحومہ بیٹی کے شوہر کو2.272روپے،ہر بیٹے کو1.704روپے، ہر بیٹی کو0.852روپےاور مرحوم  بیٹے (سائل کے بھائی) کی بیوہ کو4.545 روپے ملیں گے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط. والقبض الذي يتعلق به تمام الهبة وثبوت حكمها القبض بإذن المالك."

(کتاب الهبة، الباب الثاني في مايجوز من الهبة  ومالا يجوز ج:4، ص:377، ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو ظهر غبن فاحش) لا يدخل تحت التقويم (في القسمة) فإن كانت بقضاء (بطلت) اتفاقا لأن تصرف القاضي مقيد بالعدل ولم يوجد (ولو وقعت بالتراضي) تبطل أيضا (في الأصح) لأن شرط جوازها المعادلة ولم توجد فوجب نقضها خلافا لتصحيح الخلاصة."

(كتاب القسمة ج:6، ص:267، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں