بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

احرام کے کچھ مسائل


سوال

(1)حالت احرام میں کپڑے پہنتے یا اتارتے ہوئے یا قضائے حاجت کے وقت کپڑا چہرے یا تھوڑی سے لگے تو اس کا کیا حکم ہے؟

(2)حالت احرام میں خوشبو والے سرف سے دھلے ہوئے کپڑے پہن لیے  تو اس کا کیا حکم ہے؟

(3)حالت احرام میں کھانے کی چیز میں ونیلا ایسنس یا ذائقہ ڈالا ہوا ہو تو اس چیز کے کھانے کا کیا حکم ہے؟

جواب

(1) اگر غلطی سے کپڑا چہرے پر لگا اور فورا ہٹا دیا تو کوئی دم لازم نہیں ،لیکن اگر 12 گھنٹے تک چہرے پر کپڑا رہا تو اس سے ایک دم لازم ہوگا،اور اگر 12 گھنٹے سے کم لگا رہا تو صدقہ فطرکے بقدر  صدقہ دینا لازم ہے۔

(2)واضح رہے کہ سرف کے استعما ل سے مقصود خوشبو حاصل کرنا نہیں ہوتا،اور نہ ہی کوئی اس کو خوشبو کہتاہے ،بلکہ مقصد صفائی ہے، البتہ اس میں چونکہ کچھ نہ کچھ خوشبو ہوتی ہے،لہذا  اِحرام کی نیت کرلینے کے بعد ایسے کپڑے پہننے  سے صدقہ کرنا  لازم ہوگا۔ اور اگر اِحرام کی نیت کرنے سے پہلے ایسے کپڑے پہن لیے، پھر اِحرام کی نیت کی تو اس پر کچھ لازم نہیں ہوگا۔ 

(3) اس سوال کا مقصد کیا ہے وہ لکھ کر دوبارہ سوال کریں؛ کیوں کہ جو چیزیں اس تیسرے سوال میں ذکر کی گئی ہیں ،وہ کھانے میں بطور ذائقہ کے لیے استعمال ہوتی ہیں،اس کو احرام کی حالت میں استعمال کرسکتے ہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا لبس المحرم المخيط على الوجه المعتاد يوما إلى الليل فعليه دم، وإن كان أقل من ذلك فصدقة كذا في المحيط سواء لبسه ناسيا أو عامدا عالما أو جاهلا مختارا أو مكرها هكذا في البحر الرائق."

(كتاب المناسك ،الفصل الثاني في اللبس، ج:1، ص:242، ط:دار الفکر)

وفیہ ایضا:

"الطيب كل شيء له رائحة مستلذة ويعده العقلاء طيبا كذا في السراج الوهاج قال أصحابنا الأشياء التي تستعمل في البدن على ثلاثة أنواع نوع هو طيب محض معد للتطيب به كالمسك والكافور والعنبر وغير ذلك تجب به الكفارة على أي وجه استعمل حتى قالوا الوادي عينه بطيب تجب عليه الكفارة ونوع ليس بطيب بنفسه ولا فيه معنى الطيب ولا يصير طيبا بوجه ما كالشحم فسواء أكل أو دهن أو جعل في شقاق الرجل لا تجب الكفارة ونوع ليس بطيب بنفسه ولكنه أصل للطيب يستعمل على وجه التطيب ويستعمل على وجه الدواء كالزيت والشيرج ويعتبر فيه الاستعمال فإن استعمل استعمال الأدهان في البدن يعطى له حكم الطيب، وإن استعمل في مأكول أو شقاق رجل لا يعطى له حكم الطيب كذا في البدائع ولا فرق في المنع بين بدنه، وإزاره وفراشه، كذا في فتح القدير فإذا استعمل الطيب فإن كان كثيرا فاحشا ففيه الدم، وإن كان قليلا ففيه الصدقة كذا في المحيط."

(كتاب المناسك، الفصل الأول فيما يجب بالتطيب والتدهن، ج:1، ص:240، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100829

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں