بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جب اہلیہ پر جنیہ اور جماع کے وقت حاضر ہوتی ہو، تو اس صورت میں جماع کرنے کے بارے میں شرعی حکم


سوال

ایک عورت کے ساتھ  ایک جنیہ ہے،جب اس کا شوہر اس کے ساتھ ہم بستری کرتا ہے ، تو وہ حاضر ہو جاتی ہے،اور ہم بستری لیتی اور دیتی ہے، کبھی کبھی شوہر ایسے گپ شپ میں کہہ دیتا ہے فلاں پری کدھر گئی تو ہمبستری کے دوران وہ آجاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ  ایسے حالات میں شوہر کیا کرے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں بیوی کے ساتھ جماع کرنا جائز ہے، اگر چہ جماع کے وقت جنیہ حاضر ہوجائے، تاہم جماع کے وقت جنیہ کو  آواز دے کربلانا درست نہیں۔

اور اگر جنیہ عورت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، تو اس سے جماع کرنا جائز نہیں ہو گا۔

ہم بستری کرتے وقت ماثور دعائوں کا اہتمام کرے،حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے جماع کا ارادہ رکھتاہو تو (ستر کھولنے سے پہلے ) یہ دعا پڑھ لے؛ اس لیے کہ اگر اس صحبت سے ان کے درمیان اولاد مقدر ہوئی تو اس کو شیطان کبھی ضرر نہیں پہنچا سکے گا، وہ دعا یہ ہے:

"بِاسْمِ اللهِ اَللّٰهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا".

ترجمہ:" اے اللہ ! تو ہمیں شیطان سے بچانا اور تو ہمیں جو اولاد عطا کرے، اسے بھی شیطان سے بچانا ۔"

 حدیث میں ہے :

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « لو أن أحدهم إذا أراد أن يأتى أهله قال: باسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا؛ فإنه إن يقدر بينهما ولد فى ذلك لم يضره شيطان أبدًا."

(کتاب النکاح،‌‌باب ما يستحب أن يقوله عند الجماع،ج:4،ص:155، ط:دارالطباعة العامرۃ)

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) البداءة (بالتسمية) قولا وتحصل بكل ذكر، لكن الوارد عنه - عليه الصلاة والسلام - «باسم الله العظيم، والحمد لله على دين الإسلام» (قبل الاستنجاء وبعده) إلا حال انكشاف وفي محل نجاسة فيسمي بقلبه۔

(قوله: إلا حال انكشاف إلخ) الظاهر أن المراد أنه يسمي قبل رفع ثيابه إن كان في غير المكان المعد لقضاء الحاجة، وإلا فقبل دخوله، فلو نسي فيهما سمى بقلبه، ولا يحرك لسانه تعظيما لاسم الله تعالى."

(کتاب الطہارۃ،سنن الوضوء،ج:1،ص:109، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"في الأشباه عن السراجية:لا تجوز المناكحة بين بني آدم والجن، وإنسان الماء؛ لاختلاف الجنس. اهـ. ومفاد المفاعلة أنه لا يجوز للجني أن يتزوج إنسية أيضا وهو مفاد التعليل أيضا. (قوله: وأجاز الحسن أي البصري رضي الله عنه) كما في البحر والأولى التقييد به لإخراج الحسن بن زياد تلميذ الإمام رضي الله عنه لأنه يتوهم من إطلاقه هنا أنه رواية في المذهب، وليس كذلك ط لكنه نقل بعده عن شرح المنتقى عن زواهر الجواهر الأصح أنه لا يصح نكاح آدمي جنية كعكسه لاختلاف الجنس فكانوا كبقية الحيوانات. اهـ. ويحتمل أن يكون مقابل الأصح قول الحسن المذكور تأمل."

(كتاب النكاح،ج:3، ص: 5،  ط: سعيد)

فتاوی دارلعلوم دیوبند میں ہے:

" جنیہ سے نکاح کرنا درست ہے یا نہیں ہے ؟

(سوال ۱۷۳)  انسان  کا نکاح  عورت جنیہ سے درست ہے یا نہیں ‘ امام شافعی ؒ کا اس صورت میں کیا مسلک ہے؟

(الجواب)   انسان کی مناکحت جنات کے ساتھ درست ہے یا نہیں ۔ اشباہ میں سراجیہ سے منقول ہےلا تجوز المناکحة بین بني آدم والجن لاختلاف الجنس   اور زواہر الجواہر میں ہے  الأصح أنه لا یصح نکاح آدمي جنیة کعکسه لاختلاف الجنس فکانوا کبقیة الحیواناتشامی  اور  اس میں ائمہ اربعہ میں سے کسی کا اختلاف نقل نہیں کیا۔۔۔   فقط 

"جس کی بیوی جنیہ ہو اس  سے صحبت جائز ہے یانہیں ؟

(سوال ۱۷۴)  ہندہ پر  ایک جنیہ آتی  ہے اور شوہر  ہندہ  سے کمال محبت رکھتا ہے‘ کیا ایسی حالت میں جب کہ ہندہ پر جنیہ موجود ہو اور شوہر  ہندہ سے صحبت کرے تو یہ صحبت  جنیہ کے ساتھ زنا ہوگا یا نہیں اور اگر شوہر بحالت مذکورہ جنیہ سے نکاح کرے تو نکاح ہوجاوے گا یا نہیں ؟

 (الجواب )  حالت  مذکورہ میں شوہر  ہندہ سے صحبت کرسکتا ہے  اور یہ صحبت جنیہ کے ساتھ زنا نہ ہوگا اور نکاح انسان کا جنیہ کے ساتھ صحیح  نہیں ہے  ۔"فقط

( فتاوی دارلعلوم دیوبند،  کتاب النکاح،  ج:7، ص:201، 202، ط:دارالاشاعت )

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144504102565

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں