بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ دار سے ایڈوانس رقم لینے کا حکم


سوال

ہمارے علاقے ٹانک میں جب بازار میں دوکان کرایہ پر لیتے ہیں تو وہ مالک دوکان آپ سے ایڈوانس مانگتے ہیں کہ 200000 روپے دو، یہ میرے پاس امانت ہوگا، جب بھی آپ دوکان چھوڑیں تو یہ رقم میں واپس کروں گا۔ کیا یہ رقم دینا جائز ہے کہ نہیں؟

جواب

    دکان یا مکان کرائے پر دیتے وقت عام طور پر مالک کو یہ خطرہ رہتا ہے کہ کرایہ دار بجلی یا پانی کا بل یا ماہانہ کرایہ ادا کیے بغیر فرار نہ ہوجائے، اس خطرے کے پیش نظر  کرایہ دار سے امانت کے طور پر کچھ رقم لی جاتی ہے، یہ رقم ابتداءً امانت ہوتی ہے، لیکن چوں کہ عرف ورواج میں کرایہ دار کی طرف سے اس رقم کے استعمال کی  اجازت ہوتی ہے؛ اس لیے انتہاءً یہ رقم قرض بن جاتی ہے؛ لہذا دکان کرایہ پر دیتے وقتایڈوانس رقم  لینا اور  اس کو استعمال میں لانا  دونوں  ضرورتًا اور عرفًا جائز ہے۔

درر الحکام شرح مجلة الاحکام میں ہے:

الضرورات تبيح المحظورات  الضرورة هي العذر الذي يجوز بسببه إجراء الشيء الممنوع .

(درر الحکام شرح مجلة الأحکام،(1/ 33)، رقم المادة (21)، ط:دار الكتب العلمية)

وفيه أيضًا:

"و للمستودع أن يستعمل الوديعة بإذن صاحبها".

(درر الحکام شرح مجلة الأحکام،الكتاب السادس: الأمانات،الباب الثاني في الوديعة (2/ 267)، رقم المادة (792)،ط.دار الكتب العلمية)

النتف في الفتاوى میں ہے:

"والآخر أن يجر إلى نفسه منفعةً بذلك القرض أو تجر إليه وهو أن يبيعه المستقرض شيئًا بأرخص مما يباع أو يؤجره أو يهبه أو يضيفه أو يتصدق عليه بصدقة أو يعمل له عملًا يعينه على أموره أو يعيره عاريةً أو يشتري منه شيئًا بأغلى مما يشتري أو يستأجر إجارةً بأكثر مما يستأجر ونحوها ولو لم يكن سبب ذلك هذا القرض لما كان ذلك الفعل فإن ذلك ربا، و على ذلك قول إبراهيم النخعي كل دين جرّ منفعةً لا خير فيه".

(النتف في الفتاوى: انواع الربا،الربا في القروض(1/ 485)،ط. دار الفرقان / مؤسسة الرسالة: 1404 - 1984)

السنن الکبری للبیہقی میں ہے:

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا".

(أخرجه البيهقي في الكبرى في«باب كل قرض جر منفعةً فهو ربا» (5/ 571) برقم (10933)، ط. دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة: الثالثة، 1424 هـ = 2003م)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202201095

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں