بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک تولہ سونا اور دوجوڑی پائلوں پرقربانی کاحکم


سوال

 زید کی اہلیہ کے پاس ایک تولہ سونا اور چاندی کی دو جوڑ ی پائیلیں ہیں ،دونوں پائیلوں کی پچاس ہزار مالیت ہو گی، اور زید کے پاس حاجت اصلیہ سے زائد کچھ بھی نہیں ہے ،اور نہ زیدکی اہلیہ کےپاس ہے،تو کیا زید کی اہلیہ پر قربانی واجب ہے ؟اور کیا زید اپنی جیب سے اپنی اہلیہ کی طرف سے قربانی کر سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قربانی ہراس عاقل بالغ مقیم مسلمان مرد اورعورت پرواجب ہےجونصاب کامالک ہو یااس کی ملکیت میں ضرورت سےزائد اتناسامان ہو کہ جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کےبرابر ہو،یعنی ساڑھےسات تولہ سونایاساڑھےباون تولہ چاندی یااس کی قیمت کےبرابر رقم ہو،یارہائش کےمکان سےزائد مکانات یاجائیدادیں وغیرہ ہوں یاضرورت سے زائد گھریلوسامان ہو،جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کےبرابرہویامال تجارت شئیرز وغیرہ ہوں توایسےمرد یاعورت پرقربانی لازم ہوگی،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃً زید کےپاس حاجت اصلیہ سےزائد  کوئی  چیز بھی موجود نہیں ہے،توایسی صورت میں  زید پر قربانی واجب نہیں ہے،لیکن زید کی اہلیہ کے پاس چوں کہ  ایک تولہ سونااورچاندی کی دوجوڑی پائیلیں موجود ہیں جس  کی مجموعی قیمت ساڑھےباون تولہ چاندی کی قیمت کےبرابر ہوجاتی ہے،اس لیے زید کی اہلیہ پرقربانی واجب ہے،باقی زیداگر اپنی بیوی کی اجازت سے اس کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو کرسکتاہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر (لا الذكورة فتجب على الأنثى) خانية....(قوله وشرائطها) أي شرائط وجوبها، ولم يذكر الحرية صريحا لعلمها من قوله واليسار، ولا العقل والبلوغ لما فيها من الخلاف....(قوله واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضا يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل تلزم لو قيمته نصابا....فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفا، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم."

(‌‌كتاب الأضحية، ج:6، ص:312، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها، فأما ما عدا ذلك من سائمة أو رقيق أو خيل أو متاع لتجارة أو غيرها فإنه يعتد به من يساره، وإن كان له عقار ومستغلات....ومتى فضل من ذلك قدر مائتي درهم فصاعدا فعليه الأضحية، وإن كان العقار وقفا عليه ينظر إن كان قد وجب له في أيام الأضحى قدر مائتي درهم فصاعدا فعليه الأضحية وإلا فلا، كذا في الظهيرية."

(كتاب الأضحية، الباب الأول في تفسير الأضحية وركنها وصفتها وشرائطها وحكمها، ج:5، ص:292، ط: دار الفكر بيروت)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولو ضحى ببدنة عن نفسه وعرسه وأولاده ليس هذا في ظاهر الرواية، وقال الحسن بن زياد في كتاب الأضحية: إن كان أولاده صغاراً جاز عنه وعنهم جميعاً في قول أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى -، وإن كانوا كباراً إن فعل بأمرهم جاز عن الكل في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى."

(كتاب الأضحية، الباب السابع في التضحية عن الغير وفي التضحية بشاة الغير عن نفسه، ج:5، ص:302، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100170

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں