بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایڈوانس کرایہ اور جانبین سے کمیشن


سوال

کرایہ دار سے ایڈوانس کرایہ لینا کیسا ہے؟  اورکمیشن دونوں طرف سے لینا کیسا ہے؟

جواب

 کرایہ دار سے سیکورٹی کے طورپرکچھ رقم(ایڈوانس) وصول کرنادرست ہے۔ یہ رقم دکان کے مالک کے پاس بطورامانت ہوگی اوراس کااصل مالک کرایہ دارہی ہوگا۔اوردکان چھوڑتے وقت یہ رقم کرایہ دارکوواپس لوٹانالازم ہے،اور چوں کہ عرفاً مالک مکان یا دکان کو  اس رقم کے استعمال کی اجازت ہوتی ہے؛ لہذا یہ رقم شرعاً مالک کے ذمہ قرض ہوگی، اور اس پر قرض والے احکام لاگو ہوں گے۔

اگر کرایہ دارسے بطورکرایہ کے کچھ  رقم پیشگی وصول کی جائے اوراس رقم کو ماہانہ کرایہ میں شمارکیاجائے مثلاً زیدنے بکرسے دکان 100روپے ماہانہ کرایہ پر لی اورکرایہ متعین کردیاگیا۔ زید نے پیشگی کرایہ 2400روپے ادا کردیاجو کہ دوسال کاکرایہ بنتاہے، اب بکر اس رقم کو دو سال کاپیشگی کرایہ شمارکرے گا، تویہ طریقہ درست ہے، اگرکرایہ داراس پرراضی ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔یہ رقم مالک مکان کی ملکیت شمارہوگی۔

(کفایت المفتی:7/367،امدادالفتاویٰ:3/63)

کمیشن سے متعلق یہ واضح رہے کہ دلال/ کمیشن ایجنٹ کی دو حیثیتیں ہیں، ایک تو یہ ہے  وہ ایسا کمیشن ایجنٹ ہو  جو صرف  خریدنے والے یا بیچنے والے کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کا وکیل بنتا ہے اور خود اس کی طرف سے عقد کرتا ہے، اس صورت میں وہ صرف اسی سے کمیشن لے سکتا ہے  جس کا وہ وکیل ہو، دوسرے سے نہیں لے سکتا،  کیوں کہ جب اس نے دوسرے فریق کی ترجمانی نہیں کی تو وہ اس کی طرف سے کمیشن لینے کا حق دار بھی نہیں ہوگا۔

اور  اس کی دوسری  حیثیت یہ ہے کہ وہ کسی کا وکیل نہ بنے، بلکہ دونوں جانب یعنی  بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کی خدمات انجام دے اور دونوں کے  درمیان  رابطہ کرانے کے عمل کی اجرت لے اس صورت میں دونوں طرف سے کمیشن لینا جائز ہوگا۔

مجمع الضمانات میں ہے :

"الدلال لو باع العين بنفسه بإذن مالكه ليس له أخذ الدلالة من المشتري إذ هو العاقد حقيقة وتجب الدلالة على البائع إذا قبل بأمر البائع ولو سعى الدلال بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف فتجب الدلالة على البائع أو على المشتري أو عليهما بحسب العرف."

(مجمع الضمانات (1 / 54)، [النَّوْع التَّاسِع عَشْر ضمان الْخَادِم وَالظِّئْر]، الْقِسْمُ الثَّانِي فِي الْأَجِيرِ، (بَابُ مَسَائِلِ الْإِجَارَةِ)، (بَابُ مَسَائِلِ الْإِجَارَةِ))

شامی میں ہے:

"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.

(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 560)،[فرع ظهر بعد نقد الصراف أن الدراهم زيوف]، [كتاب البيوع]، ط: سعید)

العقود الدریۃ  میں ہے:

"(سئل) في دلال سعى بين البائع والمشتري وباع المالك المبيع بنفسه والعرف أن الدلالة على البائع فهل تكون على البائع؟

(الجواب) : نعم وفي فوائد صاحب المحيط الدلال إذا باع العين بنفسه ثم أراد أن يأخذ من المشتري الدلالة ليس له ذلك؛ لأنه هو العاقد حقيقة وتجب على البائع الدلالة؛ لأنه فعل بأمر البائع هكذا أجاب ثم قال ولو سعى الدلال بينهما وباع المالك بنفسه يضاف إلى العرف إن كانت الدلالة على البائع فعليه وإن كانت على المشتري فعليه وإن كانت عليهما فعليهما عمادية من أحكام الدلال وما يتعلق به ومثله في الفصولين وشرح التنوير للعلائي من البيع."

(العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1 / 247)،(كِتَابُ الْبُيُوعِ)، الناشر: دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200074

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں