بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایڈوانس دینے کی شرط پر قیمت میں کمی کرنا


سوال

ہم چکن فیڈ میں استعمال ہونے والا پروٹین بناتے ہیں ۔ اس کے لیے ہم مرغی کی دوکان کا مرغی کا کچرا ( مرغی کے گوشت کے علاوہ مرغی سے نکلنے والی چیزیں) خریدتے ہیں ۔ اس کے  لیے سپلائر ہوتے ہیں جو دکانوں سے جمع کر کے ہمیں بیچتے ہیں ۔ اس کی دو شکلیں ہوتی ہیں ۔ ایک ایڈوانس رقم  لے کر کام کرتے ہیں اور دوسری یہ کہ بغیر ایڈوانس جسے اوپن کہتے ہیں ۔ ایڈوانس لینے والوں کا ریٹ شروع ہی سے کم ہوتا ہے ۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ بعض لوگ ریٹ کے لالچ میں اوپن پر کام شروع کرتے ہیں اور کچھ ہی مہینوں میں ایڈوانس کا مطالبہ شروع کر دیتے ہیں۔ اب عام طور پر مارکیٹ والے ایڈوانس دے کر ریٹ کم دیتے ہیں۔ اب ہمارے ہاں بھی یہی مسئلہ آیا ہے کہ پارٹی اوپن پر تھی،  اب اس نے ایڈوانس کا مطالبہ شروع کردیا ہے اور کہہ رہا کہ پیسے دے کر ریٹ کم کر لیں ۔ میں نے بھائیوں سے کہا کہ یہ سود ہو جائے گا اگر ہم نے ایڈوانس دے کر ریٹ کم کیا ۔ ہم اس ریٹ پر ایڈوانس بھی نہیں دے سکتے؛ کیوں کہ پھر دوسری ایڈوانس والی پارٹیاں بھی زیادہ ریٹ مانگیں گی ۔

اس کا کوئی مناسب حل بتائیں ۔ ہمارے ایک بھائی کی رائے ہے کہ اس سے پچھلا کام ختم کریں،  حساب کتاب صاف کریں ۔ اور نئے سرے سے کام شروع کریں ۔ کیا یہ صحیح ہے ؟

جواب

کھلا معاملہ کرنے کے بعد ایڈوانس کا مطالبہ کرنا اور اس بناپر قیمت میں کمی کرنا جائز نہیں، یہ سود ہی شکل ہے،اس لیے کہ ایڈوانس رقم درحقیقت  قرض ہوتی ہے اور قرض کے عوض میں کسی قسم کا مشروط نفع اٹھانا سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے،  اس  لیے یہ معاملہ ختم کرکے نیا معاہدہ کیا جائے اور ایڈوانس دینے کی صورت میں مارکیٹ ریٹ پر معاملہ کیا جائے، اس  لیے کہ ایڈوانس رقم دینے کی وجہ سے ریٹ میں کمی کرنا  جائز نہیں۔

النتف فی الفتاویٰ میں ہے:

 "أنواع الربا: وأما الربا فهو علی ثلاثة أوجه:أحدها في القروض، والثاني في الدیون، والثالث في الرهون. الربا في القروض: فأما في القروض فهو علی وجهین:أحدهما أن یقرض عشرة دراهم بأحد عشر درهماً أو باثني عشر ونحوها. والآخر أن یجر إلی نفسه منفعةً بذلک القرض، أو تجر إلیه وهو أن یبیعه المستقرض شيئا بأرخص مما یباع أو یوٴجره أو یهبه…، ولو لم یکن سبب ذلک (هذا ) القرض لما کان (ذلک )الفعل، فإن ذلک رباً، وعلی ذلک قول إبراهیم النخعي: کل دین جر منفعةً لا خیر فیه."

(النتف في الفتاوى للسغدي، 484/1، ط: مؤسسة الرسالة بيروت)

وفي الهندية:

"قال محمد - رحمه الله تعالى - في كتاب الصرف إن أبا حنيفة - رحمه الله تعالى - كان يكره كل قرض جر منفعة قال الكرخي هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به."

(الفتاوى الهندية، كتاب البيوع، الباب التاسع عشر في القرض والاستقراض والاستصناع،202/3، ط: رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144310100825

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں