بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایڈوانس دینے کے بعد گھر واپس کرنا اور مالک مکان کا پورے مہینے کے کرایہ کا مطالبہ کرنے کا حکم


سوال

گھر ایک پارٹی کو کرایہ پر دیا ، 230000 روپے سیکورٹی ڈپازٹ ایڈوانس طے ہوا، ساٹھ ہزار (60000) روپے کرایہ طے ہوا، ایڈوانس کر ایہ اور ڈپازٹ دونوں کی ادائیگی انھوں نے کر دی ،چابی دے دی گئی، قبضہ بھی دے دیا گیا، ان کے کہنے کے مطابق کام کروانا تھا وہ بھی کروا دیا گیا، پھر چند دن ( چار دن بعد انہوں نے کہا کہ یہ گھر مجھے نہیں چاہیے یہ آپ واپس لے لیں، اس کے بعد مختلف لوگوں کو دکھاتے رہے لیکن وہ کرایا پر نہیں جاسکا، معاہدہ میں یہ بات طے تھی کہ "جو بھی پارٹی اس معاہدہ کو گیارہ مہینوں سے پہلے ختم کرنا چاہے گی تو وہ تین مہینے کا نوٹس دے گی ، عام طور پر مارکیٹ میں کم از کم ایک مہینے کا نوٹس تو ضرور دیا جاتا ہے، اور مالک مکان فور اگھر سے کرایہ دار کو نہیں نکالتا بلکہ ایک مہینہ پہلے نوٹس ضرور دیتا ہے، اس طرح جانے والا کبھی بھی ایک دم نہیں جاتا بلکہ وہ ہمیشہ نوٹس پہلے ہی دیتا ہے " یہ مارکیٹ کا اصول ہے تو اس معاہدہ پر دستخط بھی ہوئے ہیں ، تو اب مالک مکان یہ کہتا ہے کہ چونکہ میراگھر آپ کی وجہ سے کرایہ پر نہیں گیا، جبکہ آپ نے معاہدہ میں اس کو قبول کیا تھا اور آپ کو قبضہ (چابی) بھی دے دیا گیا تھا اور آپ کچھ سامان بھی لے آئے تھے تو اس وجہ سے آپ مجھے ایک مہینے کا کرایاد یں، جبکہ کر ایہ دار کا کہنا ہے کہ "چونکہ میں مکمل طور پر یہاں نہیں رہا تھا اور چند دن بعد میں نے آپ کو چابی بھی واپس کر دی تھی کہ مجھے یہ گھر نہیں چاہیے ، لہذا میں کرایہ نہیں ادا کرنا چاہتا"۔

شریعت کیا ر ہنمائی کرتی ہے کہ مالک مکان کا کر ایہ دار سے ایک ماہ کا کرایہ کا مطالبہ کرنا درست ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مکان کے مالک اور کرایہ دار نےباہمی رضامندی سے جب معاہدہ کیا ، اور کرایہ دار نے کچھ پیسے ایڈوانس میں دیے ،تو ایسی صورت میں کرائے دار کو چاہیے کہ اس عقد پرقائم رہے، بلا عذر شرعی یک طرفہ  طورپر کرائے داری کے معاملہ کو  ختم کرنا درست نہیں ، لیکن کرایہ دار اگر کسی معقول عذر  کی وجہ سے وقت سے پہلے مکان خالی کررہا ہے اور مالک نے چابی بھی واپس لے لی تومکان کے مالک کو چاہیے  کہ باہمی رضامندی سے   عقد ختم  کر کے  کر ایہ دار کی ایڈوانس کی مد میں دی ہو ئی  رقم   واپس کر دے اس صورت میں رقم  روکنا درست نہیں،البتہ کرایہ دار نے جتنے دن مکان کا استعمال کیا ہے اتنے روز کا کرایہ ادا کرنا لازم ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الإجارة ‌تنقض ‌بالأعذار عندنا وذلك على وجوه إما أن يكون من قبل أحد العاقدين أو من قبل المعقود عليه وإذا تحقق العذر ذكر في بعض الروايات أن الإجارة لا تنقض وفي بعضها تنقض، ومشايخنا وفقوا فقالوا: إن كانت الإجارة لغرض ولم يبق ذلك الغرض أو كان عذر يمنعه من الجري على موجب العقد شرعا تنتقض الإجارة من غير نقض."

(كتاب الإجارة، الباب التاسع عشر في فسخ الإجارة بالعذر، ج:4، ص:458، ط:رشيدية)

 بدائع الصنائع میں ہے:

"وأماصفةالإجارةفالإجارةعقدلازم إذا وقعت صحيحة عرية عن خيار الشرط والعيب والرؤية عند عامة العلماء، فلا تفسخ من غير عذر وقال شريح: إنها غير لازمة وتفسخ بلا عذر؛ لأنها إباحة المنفعة فأشبهت الإعارة، ولنا أنها تمليك المنفعة بعوض فأشبهت البيع وقال - سبحانه وتعالى - {أَوْفُوا بِالْعُقُودِ} [المائدة:1] والفسخ ليس من الإيفاء بالعقد وقال عمر: - رضي الله عنه - " البيع صفقة أو خيار" جعل البيع نوعين: نوعا لا خيار فيه، ونوعا فيه خيار، والإجارة بيع فيجب أن تكون نوعين، نوعا ليس فيه خيار الفسخ، ونوعا فيه خيار الفسخ؛ ولأنها معاوضة عقدت مطلقة فلا ينفرد أحد العاقدين فيها بالفسخ إلا عند العجز عن المضي في موجب العقد من غير تحمل ضرر كالبيع."

(کتاب الإجارة، فصل في حكم الإجارة، ج:4، ص:201، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولوشرطثلاثةفسكن في مدة الخيار سقط الخيار ولو انهدم المنزل بالسكنى لا ضمان لأنه سكن بحكم الإجارة وأول المدة من وقت سقوط الخيار. كذا في الوجيز للكردري، وإن كان الخيار لرب الدار فسكن فيها فلا أجر ويضمن ما انهدم بسكناه. كذا في الغياثية، وإن كان بعد الإجارة لزم الأجر وخيار الرؤية ثابت للمستأجر ورؤية الدار كرؤية المنافع. كذا في الوجيز للكردي."

(کتاب الإجارة، الباب الخامس،ج:4 ص:419،ط:رشيدية)

ہدایۃ شرح بدایۃ المبتدي میں ہے:

"‌وتفسخ ‌الإجارة ‌بالأعذار" ‌عندنا."

(‌‌‌‌كتاب الإجارات، باب فسخ الإجارة، ج:3، ص:247، ط:دار احياء التراث العربي بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100720

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں