بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھارخرید کر نقد پر فروخت کرنا


سوال

ایک جوتے کی دوکان میں دوکاندار سے جوتوں کی خریداری کا دام طے کر کے(کہ میں یہ جوتا آپ سےاتنے دام کا خریدوں گا)، پھر یہ معاہدہ کرنا کہ میں ان جوتوں کو ایک ایک جوڑا کرکے آن لائن اشتہار کے ذریعے بیچوں گا،  اور جب جوتے کا سودا طے ہو جائے تو میں اس جوتے کو آپ سے ادھار پر لوں گا ، پھر جب میں اس جوتے کو خریدار تک پہنچا دوں اور مقررہ قیمت خریدار سے وصول کر لوں گا،اس کے بعد دوکاندار کو اس جوتےکی قیمت چکا دوں گا۔

سوال1۔ کیا یہ طریقۂ تجارت جائز ہے؟

سوال2 -کیا میں جوتے کی قیمت دوکاندار کو ادا کرنے سے پہلے کسی اور پر بیچ سکتا ہوں  کسی بھی دام  میں ؟

سوال3-کیا اس چیز سے اپنے ہاتھوں اسی چیز کی تصویر لے کر اشتہار لگا کے بیچنا ضروری ہے؟یا نیٹ سے اس کمپنی اور اسی قسم کی چیز کی کوئی اور تصویر لگا کر بیچنا بھی جائز ہے؟

سوال4-ایک جوتے کو 1500روپےمیں دوکان دار سے خرید کر 3000 یعنی دوگنے دام پر بیچنا کیسا ہے؟

جواب

1-صورتِ مسئولہ میں     دکاندار سے جوتےکی قیمت مقرر کرنےکے بعد اس جوتے کو آن لائن اشتہار کے ذریعے فروخت کرنا تو جائز نہیں البتہ بیع کا وعدہ کرنا جائز ہوگا پھر دکاندار سے یہ جوتا خریدکر خریدار کو بیچے تو یہ جائز ہوگا، لیکن اگر آن لائن اشتہار دےکر جوتے فروخت کرے گا جب کہ جوتے ابھی تک خریدے  نہ ہوں تو ایساکرنا جائز نہیں۔

2-جوتے کی قیمت دکاندار کو اداکرنے سے پہلے جوتے کو دوکاندار سے ادھار پر لے کر آگے نقد پر فروخت کرنا جائز ہے۔

3-جس چیز کوفروخت کرنا مقصود ہواسی کی تصویر لگاناضروری ہے ،البتہ اگر ایک ہی کوالٹی کی چیز میں نیٹ پر موجود اسی کوالٹی وکمپنی کی پروڈکٹ کی تصویر لگاکر فروخت کرنابھی جائز ہوگا، البتہ ایسی صورت میں خریدنے والے کو خیار رؤیت (یعنی دیکھنےکے بعد اگر وہ چیز اس کو پسند نہ آئے تو واپس کرنے کا اختیار ہوگا) کااختیار ہوگا، اور اگر تصویر کے ساتھ ڈسکرپشن ہو تو اس کمپنی کی کوئی بھی تصویر لگاسکتے ہیں۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ اشتہار میں جان دار کی تصویر لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

4-دکاندار سے کم قیمت میں خرید کر آگے زیادہ قیمت پر فروخت کرنا جائز ہے۔

شرح المجلة لسلیم رستم باز میں ہے:

"البیع مع تاجیل الثمن وتقسیطه صحیح…، یلزم أن تکون المدة معلومة فی البیع بالتاجیل والتقسیط."

(البیوع، الباب الثالث ، المادة: 245، ص:  125۔ط:  مکتبة حنفیة کوئٹه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" وإذا عرفت المبيع والثمن فنقول من حكم المبيع إذا كان منقولا أن لا يجوز بيعه قبل القبض... وأما إذا تصرف فيه مع بائعه فإن باعه منه لم يجز بيعه أصلا قبل القبض كذا في المحيط".

( كتاب البيوع، الباب الثاني فيما يرجع إلى انعقاد البيع  ، الفصل الثالث في معرفة المبيع والثمن  ، ج:3،ص:13، ط:  رشیدیہ)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد."

(كتاب اليبوع، باب البيوع الفاسدة،ج:13،ص:7،ط:دارالمعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406102152

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں