زید کی کوئی اولاد نہیں تھی ، اس نے اپنے سگے بھائی کی بیٹی کو گود لیا ہے اور داماد بھی اب یہیں رہتا ہے ، زید کا انتقال ہو گیا ہے، اب زید کامال کیسے تقسیم ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں زید کی لے پالک بیٹی زید کی وارث نہیں ہے،زید کی میراث اس کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگی،ورثاء کی تعداد بتا کر میراث کی تقسیم معلوم کی جاسکتی ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
"وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ وَ اللّٰهُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَ هُوَ یَهْدِی السَّبِیْلَ ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله." الآية
(الاحزاب:5،4)
تفسیر قرطبی میں ہے:
"قوله تعالى: (ادعوهم لآبائهم) نزلت في زيد بن حارثة على ما تقدم بيانه. وفي قول ابن عمر: ما كنا ندعو زيد بن حارثة إلا زيد بن محمد دليل على أن التبني كان معمولا به في الجاهلية والإسلام يتوارث به ويتناصر إلى أن نسخ الله ذلك بقوله: (ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله) أي أعدل. فرفع الله حكم التبني الخ."
(سورۃ الاحزاب،ج:14،ص:119،ط:دار الکتب المصریۃ)
موسوعۃ فقہیہ کوئیتیہ میں ہے:
"التبني: اتخاذ الشخص ولد غيره ابنا له،وكان الرجل في الجاهلية يتبنى الرجل، فيجعله كالابن المولود له، ويدعوه إليه الناس، ويرث ميراث الأولاد.... حرم الإسلام التبني، وأبطل كل آثاره، وذلك بقوله تعالى: {وما جعل أدعياءكم أبناءكم ذلكم قولكم بأفواهكم والله يقول الحق وهو يهدي السبيل}، وقوله تعالى:{ادعوهم لآبائهم}."
(تبنی،ج:10،ص:121)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307100549
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن