بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قصہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا امور مسلمین میں مشغول ہوتے وقت معاملہ پیش کرنے والے آدمی کو مارنا کی سند


سوال

درج ذيل واقعے کی سند درکار ہے :

 حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ ایک دفعہ دربار کا وقت ختم ہونے کے بعد گھر آئے اور کسی کام میں لگ گئے، اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا : امیر المومنین، آپ فلاں شخص سے میرا حق دلوا دیجیے۔ آپ کو بہت غصہ آیا اور اس شخص کی پیٹھ پر ایک دُرّا  مارا اور فرمایا: جب میں دربار لگاتا ہوں تو اس وقت تم اپنے معاملات لے کر آتے نہیں اور جب میں گھر کے کام کاج میں مصروف ہوتا ہو ں تو تم اپنی ضرورتوں کو لے کر آ جاتے ہو،بعد میں آپ کو اپنی غلطی کا اندازہ ہوا تو بہت پریشان ہوئے اور اس شخص کو (جسے درا مارا تھا) بلوایا اور اس کے ہاتھ میں درا دیا اور اپنی پیٹھ آگے کی کہ مجھے درا مارو ، میں نے تم پر زیادتی کی ہے ۔ وقت کا بادشاہ ،چوبیس لاکھ مربع میل کا حکمران ایک عام آدمی سے کہہ رہا ہے  کہ میں نے تم پر زیادتی کی  ہے، مجھے ویسی ہی سزا دو ۔ اس شخص نے کہا : میں نے آپ کو معاف کیا ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں ، کل قیامت کو مجھے اس کا جواب دینا پڑے گا ،تم مجھے ایک درا مارو ، تا کہ تمہارا بدلہ پورا ہو جائے، آپ رضی اللہ عنہ روتے جاتے تھے اور فرماتے : اے عمر ، تو کافر تھا ، ظالم تھا، بکریاں چراتا تھا، خدا نے تجھے اسلام کی دولت سے مالا مال کیا اور تجھے مسلمانوں کا خلیفہ بنایا، کیا تو اپنے رب کے احسانوں کو بھول گیا ؟! آج ایک آدمی تجھ سے کہتا ہے کہ مجھے میرا حق دلاو تو تو اسے درا مارتا ہے، اے عمر،  تو سمجھ بیٹھا ہے کہ مرے گا نہیں، کل قیامت کے دن تجھے اللہ کو ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے گا۔ حضرت  عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسی بات کو دہراتے  رہے اور بڑی دیر روتے رہے۔ 

 

جواب

سب سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ مذکورہ واقعہ کو جس انداز سے سوال میں نقل کیا گیا ہے ،  یہ واقعہ بعینہ اس طرح پیش نہیں آیا ، بلکہ حضرت احنف بن قيس رحمه الله  اس کو یوں نقل فرما تے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک جماعت جو  ایک عظیم فتح  کے بعد مدینہ واپس آئی تھی،حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس  سے سفر کی کار گزاری وغیرہ دریافت فرما رہے تھے، اسی درمیان ایک شخص نے اپنے معاملہ کو حل کرنے کی استدعا کی  کہ میرے ساتھ چلیے اور فلاں شخص  کے تئیں میری مدد کیجیے،  اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے۔ حضرت احنف بن قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دُرَّہ اٹھایا اور اس شخص کو مارا، اور پھر  حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:تم لوگ امیر المؤمنین کو چھوڑے رکھتے ہو جب وہ تمہارے سامنے حاضر ہوتا ہے، لیکن جب وہ مسلمانوں کے کسی امر میں مشغول ہوجاتا  ہے تو تم آ جاتے ہو کہ ہماری مدد کریں، ہماری مدد کریں ،  وہ  شخص اس حال میں واپس  گیا  کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس پر غصہ فرما رہے تھے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ا س شخص  کو میرے سامنے لایا جائے۔ پھر اس کو دُرّہ حوالہ کیا، اور فرمایا : مجھ سے اپنا بدلہ   لے لو ۔  اس شخص نے کہا: نہیں ، اللہ کی قسم  ، میں اسے اللہ  اور آپ کے لیے چھوڑتا ہوں۔  حضرت عمر نے فرمایا: اللہ کے ہاں اجر وثواب کی نیت سے چھوڑتے ہو  یا میرے لیے؟!  کہا: اللہ کے لیے چھوڑتا ہوں۔ حضرت احنف بن قیس فرماتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلا گیا،  اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر آ گئے  ، اور ہم بھی ان کے ساتھ ہی تھے، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے نماز شرو ع کردی ،دو رکعات پڑھیں اور  بیٹھ گئے، اور فرمانے لگے: اے خطاب کے بیٹے! تم تو گرے پڑے تھے اللہ نے تمہیں اٹھایا، اور تم تو گمراہ تھے  اللہ نے تمہیں ہدایت دی،اور تم ذلیل تھے اللہ نے تمہیں عزت دی،  پھر  اس نے تمہیں  لوگوں کا بڑا بنا دیا،  پس اب کوئی آدمی آتا ہے  اور تم سے پناہ(مدد) چاہتا ہے  ،  تم اسے مارتے ہو،  کل جب تم اپنے رب کے حضور پیش ہوگے تو کیا جواب دو گے؟ احنف بن قیس فرماتے ہیں :  حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو ملامت کررہےتھے ، یہاں تک کہ ہم نے جان لیا کہ وہ زمین والوں میں سب سے بہتر ہیں ۔

مذکورہ تفصیل کے بعد اصلِ واقعہ مع سند ملاحظہ فرمائیے: 

مذكوره واقعه  حافظ ابن عساكر رحمه الله (المتوفى:571 ھ) نےتاریخ دمشق میں اپنی درج ذیل سند کے ساتھ نقل فرمایا ہے:

"أخبرنا أبو القاسم إسماعيل بن أحمد، أنا أبو الحسين أحمد بن محمد بن أحمد بن النقور، أنا أبو القاسم عيسى بن علي بن عيسى، أنا عبد الله بن محمد البغوي، نا داود بن عمرو، أنا ابن أبي غنية، وهو يحيى بن عبد الملك، نا سلامة بن صبيح التميمي، قال: قال الأحنف بن قيس: ما كذبت قط إلا مرة، قالوا: وكيف يا أبا بحر؟ قال: وفدنا إلى عمر بفتح عظيم؛ فلما دنونا من المدينة فلقيه رجل، فقال يا أمير المؤمنين، انطلق معي فأعدني على فلان؛ فإنه قد ظلمني، قال: فرفع الدرة، فخفق بها رأسه، فقال: تدعون أمير المؤمنين وهو معرض لكم، حتى إذا شغل في أمر من أمور المسلمين أتيتموه "أعدني أعدني"، قال: فانصرف الرجل، وهو يتذمّر، قال: عليَّ الرجل، فألقى إليه المخفقة، فقال: امتثل، فقال: لا والله، ولكن أدعها لله ولك، قال: ليس هكذا، إما أن تدعها لله إرادة ما عنده، أو تدعها لي، فاعلم ذلك. قال: أدعها لله، قال: فانصرف، ثم جاء يمشي حتى دخل منزله ونحن معه؛ فافتتح الصلاة فصلى ركعتين وجلس، فقال: يا ابن الخطاب، كنتَ وضيعًا فرفعك الله، وكنتَ ضالًا فهداك الله، وكنت ذليلًا فأعزك الله، ثم حملك على رقاب المسلمين؛ فجاءك رجل يستعيذ بك؛ فضربتَه، ما تقول لربك غدا إذا أتيته ؟ قال: فجعل يعاتب نفسه في ذلك معاتبة، ظننا أنه من خير أهل الأرض."

(تاریخ دمشق، (44/ 291 و292)، ط/ دار الفكر 1417ه)

علامہ ابن اثیر  رحمہ اللہ (المتوفى: 630ھ)نے بھیاسد الغابةمیں اسي واقعه كو سفر سے واپسی  والے حصہ کے ذکر کے بغیر    مذكوره سند  (جو ابن عساکر رحمہ اللہ نے ذکرفرمائی ہے)  کے ساتھ ہی نقل فرمایا ہے۔ 

 (اسد الغابة، عمر بن الخطاب، زهده وتواضعه رضي الله عنه، (3/ 653 و654)، ط/ دار الفكر بيروت 1409ه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401100153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں