بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آدمی کا اپنی والدہ کے ساتھ لیٹنے کا حکم


سوال

میرےشوہر کا اپنی ماں کے بالکل ساتھ لیٹنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بچے جب دس سال کے ہوجائے تو شریعتِ مطہرہ نے بچوں کےبستر جداکرنے کا حکم دیا ہے، لڑکوں کے الگ اور لڑکیوں کے الگ، اسی طرح لڑکا ہے تو اس کا بستر والدہ سے  اور لڑکی کا والد سے الگ کرنے کا حکم ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر کو اپنی والدہ کے بالکل ساتھ لیٹنے کی شرعاًاجازت نہیں، اس سے اجتناب کرے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وإذا بلغ الصبي أو الصبية عشر سنين يجب التفريق بينهما بين أخيه وأخته وأمه وأبيه ‌في المضجع لقوله - عليه الصلاة والسلام - «وفرقوا بينهم ‌في ‌المضاجع وهم أبناء عشر»"

(باب الإستبراء و غيره، ج: 6، ص: 382، ط: دار الفكر بيروت)

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين واضربوهم عليها وهم أبناء عشر سنين وفرقوا بينهم فى المضاجع »".

(‌‌باب متى يؤمر الغلام بالصلاة، ج: 1، ص: 185، ط: الطبعة الأنصارية بدهلي۔ هند)

مصنف ابنِ ابی شیبہ میں ہے:

"حدثنا وكيع عن داود بن سوار عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: قال نبي الله -صلى الله عليه وسلم-: "مروا صبيانكم بالصلاة إذا بلغوا سبعا، واضربوهم عليها إذا بلغوا عشرا، وفرقوا بينهم ‌في ‌المضاجع."

(متى يؤمر الصبي بالصلاة؟، ج: 3، ص: 363، ط: دار كنوز إشبيليا للنشر والتوزيع، الرياض - السعودية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101134

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں