بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آمدنی میں مخصوص حصہ اللہ تعالی کے لیے مقرر کرنا


سوال

اگر کوئی یہ نیت کرے کہ میں اپنی آمدنی کا تیسواں حصہ اللہ کے راستے میں صدقہ کروں گا تویہ نفلی صدقہ ہے یا وجوبی؟

جواب

آمدنی میں جو  حصہ  اللہ تعالی   کے لیے خاص کیا جائے، اگر  زبان سے یہ   کہا کہ  اتنا حصہ اللہ تعالی کا ہے تو  اس کی  حیثیت  نذر اور   واجب صدقہ کی ہے، ا س سے مسجد بنوانا  ، مدرسہ کی تعمیر کروانا  درست نہیں ہے۔ اسی طرح  اس حصے میں سے مال دار  شخص کو  یا والدین  ،  اولاد اور میاں بیوی کا ایک دوسرے کو دینادرست نہیں  ہے۔ کسی غریب مستحق کو دینا ضروری ہے۔

اور  اگر زبان سے نہیں کہاکہ  اتنا حصہ اللہ تعالی کا ہے،  بلکہ صرف نیت کی کہ اتنا صدقہ میں غریبوں کو دوں گا تو  اس کی  حیثیت نفلی صدقہ کی ہے، ا س سے مسجد بنوانا، مدرسہ کی تعمیر کروانا   درست   ہے۔ 

"اعلم أن الصدقۃ تستحب فاضل عن کفایتہ، والافضل لمن یتصدق نفلاً أن ینوی لجمیع المؤمنین والمؤمنات؛ لأنہا تصل إلیہم ولا ینقص من أجرہ شیء"۔ (شامي ۲؍۳۵۷ کراچی)
"فالجملہ في ہذا أن جنس الصدقۃ یجوز صرفہا إلی المسلم … ویجوز صرف التطوع إلیہم بالاتفاق، وری عن أبي یوسف أنہ یجوز صرف الصدقات إلی الأغنیاء أذا سموا فی الوقف۔ فأما الصدقۃ علی وجہ الصلۃ والتطوع فلا بأس بہ، وفي الفتاوی العتابیۃ: وکذلك یجوز النفل للغني". (الفتاویٰ التاتارخانیة ۳؍۲۱۱-۲۱۴) فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144110200233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں