بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ادعیۂ ماثورہ میں الفاظ یا صیغے کی تبدیلی کا حکم / کیا اس تبدیلی سے قرآن وسنت میں تحریف لازم آتی ہے؟


سوال

کیا ادعیۂ ماثورہ (قرآن وسنت کی منصوص دعاؤں) میں  صیغہ وغیرہ کی تبدیلی کرکے دعا مانگنا جائز ہے؟ خواہ آدمی اپنی انفرادی دعا مانگے یا امام وغیرہ اجتماعی دعا مانگے، مثلاً یوں کہے: "رب زدنا علما"، جیسا کہ بعض ائمہ مانگتے ہیں، اور بعض مرتبہ ائمۂ حرم کو بھی سنا کہ وہ اس طرح دعا مانگ رہے تھے: "لا إله إلا أنت سبحنك إنا كنا من الظالمين

اور بعض روایات میں صیغے کی تبدیلی بھی نظر سے گزری ہے، جیسا کہ مشکوٰۃ شریف قدیمی ص: ١٠٨ پر ہے: "اللهم زدني علما ولاتزغ قلبي بعد إذ هديتني وهب لي من لدنك رحمة إنك أنت الوهاب" (اس میں شروع میں "رب" کے بجائے "اللهم" ہے، اور ساتھ ہی دوسری دعا میں صیغۂ جمع کے بجائے صیغۂ واحد "لاتزغ قلبي" وغیرہ ہے) الغرض سوال یہ ہے کہ:

1- یہ تبدیلی جائز ہے یا نہیں؟

2- اگر جائز ہے تو کون سی تبدیلی جائز ہے اور کون سی نہیں؟ اس سلسلے میں اگر کوئی اصول ہو تو وہ بھی ذکر فرما دیں۔

3- اور کیا اس طرح تبدیلی کرنےسے تحریفِ قرآن وسنت تو لازم نہیں آئے گا؟ بعض روایات میں آپ ﷺ نے صحابی کو دعا سکھائی، اور انھوں نے جب "وبرسولك الذي أرسلت"، پڑھا تو آپ ﷺ نے ٹوکا کہ نہیں "وبنبيك الذي أرسلت" ہی پڑھو۔

بہرحال قرآن وسنت اور فقہائے کرام کے کلام کی روشنی میں ایک طالبِ علم کا خلجان دور فرماکر ممنون فرمائیں۔

جواب

(1) و (2):قرآن وسنت سے منقول دعاؤں میں الفاظ کی تبدیلی (بایں طور کہ ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ پڑھا جائے) اور تقدیم و تاخیر  (یعنی جو لفظ بعد میں ہے اُسے پہلے، اور جو لفظ پہلے ہے اُسے بعد میں پڑھنا) جائز نہیں ہے، البتہ دعا سے پہلے، درمیان  یا بعد میں کوئی ایسا اضافہ کرنا جس سے معنیٰ تبدیل نہ ہو، یا صیغے کی تبدیلی (یعنی صیغہ واحد کو جمع اور جمع کو واحد سے تبدیل) کرنے کی گنجائش ہے، تاہم بہتر یہی ہے کہ اس میں بھی تبدیلی نہ کی جائے؛ کیوں کہ  قرآن وحدیث میں جو دعائیں جن الفاظ اور جس صیغہ کے ساتھ منقول ہیں، ان کی اپنی تاثیر اور خصوصیات ہیں،  ان  میں تبدیلی کرنے سے وہ دعاء لفظا ً ماثور اور منقول نہیں رہتی، محققین علمائے  کرام کے نزدیک مسنون دعاؤں اور اذکار کے الفاظ توقیفی ہوتے ہیں،  اس لیے   اُن کو اس کی   اتباع  میں اسی طرح پڑھنا چاہیے،  اور اُن  میں  صیغے کی تبدیلی  یا الفاظ کا اضافہ کرنے سے اگرچہ وہ دعا، دعا ہونے کی حیثیت سے تو درست ہوسکتی ہے،   لیکن اس کو  ماثور نہیں کہا جائے گا۔

لہٰذا فرض نماز میں  ماثور  اور منقول دعا جس صیغہ کے ساتھ وارد ہے، اُسی صیغہ کے ساتھ   پڑھی جائے؛   چوں کہ  امام  مقتدیوں کا نمائندہ ہوتا  ہے تو اس کی دعا میں مقتدی خود بخود  شامل ہوجاتے ہیں۔ اور نماز کے علاوہ  بھی  اگر  ماثور ومنقول دعا میں  واحد کا صیغہ ہے تو اس دعا کو ان  ہی الفاظ سے مانگنا بہتر ہے، اس صورت میں بھی  سامعین  "آمین" کہہ کر  دعا  میں شامل ہوسکتے ہیں، یا دعا کرنے والا  دل میں تمام مسلمانوں کی نیت کرکے بھی ان سب کو شامل کرسکتا ہے۔ البتہ اگر دعا کرنے والا   ماثور دعاؤں میں سے جو عمومی دین ودنیا کی بھلائی کی دعائیں ہیں، ان  میں  واحد کی بجائے جمع کا صیغہ استعمال کرتا ہے تو یہ بھی جائز ہے، نیز انفرادی دعاء کرنے میں بھی   کیفیت کے  اعتبار سے دونوں صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں،  البتہ منقول کی اتباع زیادہ بہتر ہے، اور دونوں پر ایک ساتھ بھی عمل کیا جاسکتا ہے، اس طور پر کہ پہلے منقول الفاظ وصیغہ کے ساتھ دعا مانگی جائے، پھر جب اس کا تکرار کرے تو موقع کی مناسبت سے صیغہ میں تبدیلی یا الفاظ میں اضافہ کرلے۔

فتح الباری میں ہے:

"وأولى ما قيل في الحكمة في رده صلى الله عليه وسلم على من قال الرسول بدل النبي أن ألفاظ الأذكار توقيفية ولها خصائص وأسرار لا يدخلها القياس فتجب المحافظة على اللفظ الذي وردت به وهذا اختيار المازري قال فيقتصر فيه على اللفظ الوارد بحروفه وقد يتعلق الجزاء بتلك الحروف ولعله أوحى إليه بهذه الكلمات فيتعين أداؤها بحروفها."

(كتاب الدعوات،  باب الضجع على الشق الأيمن، ١١/ ١١٢، ط: دار المعرفة)

عمدۃ القاری میں ہے: 

"قوله: (لا ونبيك الذي أرسلت) قالوا: سبب الرد ... وقيل: هذا ذكر ودعاء فيقتصر فيه على اللفظ الوارد بحروفه لاحتمال أن لها خاصية ليست لغيرها."

(كتاب الدعوات، باب إذا بات طاهرا، ٢٢/ ٢٨٣، ط: دار الفكر)

حاشیہ سہارنپوری میں ہے:

"فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "قل كما قلت: وبنبيك". وفيه دليل على أن رعاية الألفاظ المروية أمر مهم فيه حكمة بالغة."

(صحيح البخاري بحاشية السهارنفوري، كتاب الدعوات، باب ما يقول إذا نام، ١٢/ ٤٣٤، ط: مركز الشيخ أبي الحسن علي الندوي)

شرح سنن ابی داؤد لابن رسلان میں ہے:

"(ولا يختص نفسه بدعوة دونهم) فقد صرح الغزالي في "الإحياء" بكراهة ذلك، فقال في "الإحياء" في كلامه على التشهد يقول: اللهم اغفر لنا. ولا يقول: اللهم اغفر لي. فقد كره للإمام أن يخص نفسه بالدعاء.

قال الشافعي : لا أحب للإمام تخصيص نفسه بالدعاء دون القوم، ومقتضى كلام الرافعي أن الإمام يأتي في دعائه بصيغة الجمع، سواء قنت المأموم أم لا، سواء سمع المأمومون القنوت أم لا (فإن فعل) ذلك (فقد خانهم) ويدخل في إطلاق الحديث وعمومه الدعاء المشروع وغيره، والدعاء داخل الصلاة وبعد الفراغ منها، وكذا إذا دعا بقوم لا يخص نفسه بل يدعو لوالديه وللمؤمنين لكنه  يبدأ بنفسه في الدعاء، كما جاء في دعاء إبراهيم - عليه السلام -: {ربنا اغفر لي ولوالدي وللمؤمنين}."

(كتاب الطهارة، باب أيصلي الرجل وهو حاقن؟، ١/ ٦٣١، ط: دار الفلاح)

وفيه أيضاً:

"(ونعوذ بالله) أي: نلتجئ إليه ونعتصم به، وفيه دلالة على أنه يستحب للخطيب أن يأتي في خطبته بالثناء على الله تعالى، والاستغفار، والدعاء، وغيرهما أن يأتي بصيغة الجمع لرواية المصنف والترمذي: "لا يؤم عبد قوما فيخص نفسه بدعوة دونهم، فإن فعل ‌فقد ‌خانهم"، والخطيب في معنى الإمام [والثناء في معنى الدعاء]."

(كتاب الصلاة، باب الرجل يخطب على قوس،  ٥/ ٥٩٠، ط: دار الفلاح)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ودعا) بالعربية، وحرم بغيرها نهر لنفسه وأبويه وأستاذه المؤمنين.

وقال عليه في الرد: وفي رواية «أنه - صلى الله عليه وسلم - سمع رجلا يقول: اللهم اغفر لي، فقال: ويحك لو عممت لاستجيب لك» وفي أخرى «أنه ضرب منكب من قال اغفر لي وارحمني، ثم قال له: عمم في دعائك، فإن بين الدعاء الخاص والعام كما بين السماء والأرض». وفي البحر عن الحاوي القدسي: من سنن القعدة الأخيرة الدعاء بما شاء من صلاح الدين والدنيا لنفسه ولوالديه وأستاذه وجميع المؤمنين. اهـ. قال: وهو يفيد أنه لو قال اللهم اغفر لي ولوالدي وأستاذي لا يفسد مع أن الأستاذ ليس في القرآن، فيقضى عدم الفساد في اللهم اغفر لزيد."

(كتاب الصلاة، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها، ١/ ٥٢١، ط: سعيد)

تحفة الالمعي" ميں ہے: 

”فائده :  ماثورہ اذکار میں تبدیلی کرنے کی تو گنجائش نہیں مگر اضافہ کی گنجائش ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کو کوئی دعا سکھلائی تھی، انہوں نے وہ دعا یاد کرکے سنائی، اور ”بنبيك الذي أرسلت“ کی جگہ ” برسولك الذي أرسلت“ پڑھ دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوکا، معلوم ہوا کہ منقولہ دعاؤں میں تبدیلی کرنے کی اجازت نہیں ، اور کتاب الحج میں  یہ حدیث آئے گی کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے  بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ  یہ تھا، پھر انہوں نے ماثورہ تلبیہ  کے آخر میں اضافہ کیا، معلوم ہوا کہ شروع میں یا درمیان میں  یا آخر میں  اضافہ کی گنجائش ہے۔“

(کتاب الصلاۃ،٢/ ٩٤،  ط: زمزم پبلشر)

  تربیت السالک میں ہے:

"دعائیں دونوں صیغوں سے منقول ہیں، واحد کے صیغہ میں الحاح کی  مصلحت زیادہ ہے اور جمع کے صیغہ میں دوسروں کو شریک کرلینے سے زیادہ دعا کے قبول ہونے کی مصلحت زیادہ ہے، جس وقت جس کیفیت کا غلبہ ہو ، اس کا اتباع کرلیا جائے، میرا ذوق یہ ہے کہ پہلے ہر دعا میں منقول کا اتباع کرے کہ یہ ادب کے زیادہ قریب ہے، پھر اس دعا کے تکرار میں وقتی  ذوق کا اتباع کرے کہ دونوں مجتمع ہوجائیں۔"

(تسہیل تربیت السالک، از حکیم الامت مولانا  اشرف علی تھانوی، ٣/ ٢٥٣، ط:زمزم پبلشر)

کفایت المفتی میں ہے:

"جو وظائف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں ان کو اسی ثابت شدہ ترکیب و ترتیب سے پڑھنا چاہیے اس میں برکت اور امید قبولیت ہے اور جو وظائف حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ان میں اختیار ہے جس طرح چاہے پڑھے۔"

(کتاب السلوک والطریقہ،٢/ ١١٩، ط: دار الاشاعت)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"(سوال): احادیث میں بعض دعاؤں میں واحد متکلم کا صیغہ ہے۔ اجتماعی دعاؤں میں جمع متکلم کا صیغہ استعمال کرنا درست ہے یا نہیں ؟ مثلاً اهدني کی جگہ اهدنا۔

(جواب): درست ہے۔"

(باب الذکر والدعاء بعد الصلوات٥/ ٧٢٤، ط: ادارۃ الفاروق)

 

(3): ادعیۂ ماثورہ میں مذکورہ نوعیت کی تبدیلی کرنے سے تحریفِ قرآن وسنت لازم نہیں آتی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله ويحتمل إلخ) جواب عما أورد الكمال من أنه إذا قرأها في مجلس واحد يلزم عليه تغيير نظم القرآن وقد مر أن اتباع النظم مأمور به. وأجاب في البحر بأن قراءة آية من السورة غير مكروه كما مر تعليله عن البدائع وفيه نظر لأن ما مر في قراءة آية واحدة، أما إذا قرأ آيات السجدة وضم بعضها إلى بعض يلزم عليه تغيير النظم وإحداث تأليف جديد كما نقله الرملي عن المقدسي، فلذا أجاب الشارح تبعا للنهر بحمل ما في الكافي على ما إذا سجد لكل آية بعد قراءتها فإنه لا يكره لأنه لا يلزم منه تغيير النظم لحصول الفصل بين كل آيتين بالسجود، بخلاف ما إذا قرأها ولاء ثم سجد لها فهذا يكره.

قلت: لكن تقدم قبيل فصل القراءة أنه يستحب عقب الصلاة قراءة آية الكرسي والمعوذات، فلو كان ضم آية إلى آية من محل آخر مكروها لزم كراهة ضم آية الكرسي إلى المعوذات لتغيير النظم مع أنه لا يكره لما علمت بدليل أن كل مصل يقرأ الفاتحة وسورة أخرى أو آيات أخر، ولو كان ذلك تغييرا للنظم لكره. فالأحسن الجواب بما في شرح المنية من أن تغيير النظم إنما يحصل بإسقاط بعض الكلمات أو الآيات من السورة لا بذكر كلمة أو آية، فكما لا يكون قراءة سور متفرقة من أثناء القرآن مغيرا للتأليف والنظم لا يكون قراءة آية من كل سورة مغيرا له اهـ"

(كتاب الصلاة، باب سجود التلاوة، ٢/ ١١٩، ط: سعيد)

مختصر المعانی میں ہے:

"(أما الاقتباس فهو أن يضمن الكلام) نظما كان أو نثرا (شيئا من القرآن أو الحديث لا على أنه منه) أى لا على طريقة أن ذلك الشىء من القرآن أو الحديث يعنى على وجه لا يكون فيه إشعار بأنه منه كما يقال فى أثناء الكلام: قال الله تعالى كذا وقال النبى صلّى الله عليه وسلّم كذا ونحو ذلك فإنه لا يكون اقتباسا ... (وهو) أى الاقتباس (ضربان) أحدهما (ما لم ينقل فى المقتبس عن معناه الأصلى كما تقدم) من الأمثلة (و) الثانى (خلافه) أى ما نقل فيه المقتبس عن معناه الأصلى ... (ولا بأس بتغيير يسير) فى اللفظ المقتبس (للوزن أو غيره كقوله) ..الخ"

(خاتمة، الاقتباس، ٤/ ٢٦٥، ط: المکتبة العصریة)

نیز حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

"سوال :  قرآن اور حدیث میں جو دعائیں آئی ہیں، کیا موقع کی مناسبت سے ان دعاؤں میں واحد متکلم کی جگہ  جمع متکلم اور جمع متکلم کی جگہ واحد متکلم کے ساتھ ردو بدل کیا جا سکتا ہے؟ کیا قرآنی دعاؤں میں اس تبدیلی سے تحریف قرآن تو لازم نہیں آتی ؟

جواب  : مناسب تو یہ ہے کہ جود عا جن الفاظ میں منقول ہے ، ان کو اسی طرح رکھا جاۓ ، تا ہم اگر واحد ، جمع کے صیغے بدل لے تب بھی کوئی حرج نہیں ۔ قرآن کریم دعا کی نیت سے پڑھا جائے تو اس سے مقصود قر آن کریم کے الفاظ کی حکایت نہیں ہوتی،  یہی وجہ ہے کہ جنبی اور حائضہ کو قرآنی دعائیں ، دعا کی نیت سے پڑھنے کی اجازت ہے ۔ اس لیے  دعا میں قرآنی الفاظ تبدیل  کرنے سے تحریف تو لازم نہیں آئے گی،  لیکن قرآن کریم کے مبارک الفاظ زیادہ بہتر ہیں ، اس لیے ان کو تبد یل کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔"

(آپ کے مسائل اور ان کا حل، بعنوان :دعا میں قرآنی الفاظ کو تبدیل کرنا، ٤/ ٤٣٢،   ط:  ،مکتبہ لدھیانوی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101921

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں