بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کا حکم


سوال

عدت کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ہر وہ عورت جس سے ہمبستری یا خلوت صحیحہ  کے بعد طلاق ہوگئی ہو، یا زوجین کا باہمی رضامندی سے  خلع ہوا ہو یا شرعی طریقہ پر نکاح فسخ کیا گیا ہو یا  شوہر انتقال کرگیا ہو، اس پر عدت گزارنا لازم ہے، اور یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس کو بجالانا ہر متعلقہ خاتون پر لازم ہے، نیزبعض احکام میں عدت بحکم نکاح ہوتی ہے، اسی لیے معتدہ کا نکاح کسی اور مرد سے جائز نہیں، لہذا عورت کا عدت وفات یا عدت طلاق وغیرہ میں احکام عدت کی رعایت نہ کرنا اور ان کی خلاف ورزی کرنا ناجائز  ہے، ایسی عورت سخت گنہگار ہوتی ہے، اور اگر کوئی عورت حالت عدت میں نکاح کرلیتی ہے تو اس کا نکاح شرعاً ہرگز درست ومعتبر نہ ہوگا؛ بلکہ باطل وغیر معتبر ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"وفي الشريعة ما ذكره بقوله (هي تربص يلزم المرأة عند زوال النكاح أو شبهته) أي: لزوم انتظار انقضاء مدة والتربص التثبت والانتظار قال الله تعالى {فتربصوا به حتى حين} [المؤمنون: 25] وقال تعالى {ويتربص بكم الدوائر} [التوبة: 98] وقال تعالى {فتربصوا إنا معكم متربصون} [التوبة: 52] كذا في البدائع وإنما قدرنا اللزوم؛ لأن التربص فعلها وقد قالوا إن ركنها حرمات أي: لزومات كحرمة تزوجها على الغير".

(کتاب الطلاق، باب العدّۃ، ج: ۴، صفحہ: ۱۳۸، ط: دارالکتاب الاسلامی)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما أحكام العدة فمنها أنه لا يجوز للأجنبي نكاح المعتدة لقوله تعالى {ولا تعزموا عقدة النكاح حتى يبلغ الكتاب أجله} [البقرة: 235] قيل: أي لا تعزموا على عقدة النكاح، وقيل: أي لا تعقدوا عقد النكاح حتى ينقضي ما كتب الله عليها من العدة ولأن النكاح بعد الطلاق الرجعي قائم من كل وجه، وبعد الثلاث والبائن قائم من وجه حال قيام العدة لقيام بعض الآثار، والثابت من وجه كالثابت من كل وجه في باب الحرمات احتياطا، ويجوز لصاحب العدة أن يتزوجها؛ لأن النهي عن التزوج للأجانب لا للأزواج؛ لأن عدة الطلاق إنما لزمتها حقا للزوج لكونها باقية على حكم نكاحه من وجه فإنما يظهر في حق التحريم على الأجنبي لا على الزوج إذ لا يجوز أن يمنع حقه".

(کتاب الطلاق، فصل فی احکام العدّۃ، ج: ۳، صفحہ: ۲۰۴،  ط: دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507102103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں