بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

ادارے کا منتظم دفتر میں اپنا ذاتی کاروبار چلا سکتا ہے یا نہیں؟


سوال

میں الحمد للہ ایک ادارے کا منتظمِ اعلیٰ ہوں، وہاں امامت وخطابت کے ذمہ داریاں بھی سرانجام دے رہاہوں، اس کے ساتھ ساتھ وہاں شعبۂ کتب میں بھی تدریس کے فرائض بھی انجام دے رہاہوں، بحیثیت مدیر اور منتظم میری تنخواہ مقرر ہے ، جب کہ تدریس کے فرائض اعزازی انجام دے رہاہوں۔

اب سوال یہ ہے کہ جیسے معاشرےمیں حالات چل رہے ہیں اور مالی لحاظ سے سب پریشان ہیں  تو جہاں عام طبقہ متاثر ہے وہاں علماء کا طبقہ بھی کافی متاثر ہے، اس لیے  مالی لحاظ سے اپنے آپ کو مضبوط کر نے کے لیے مدرسے کے دفتر میں  اپنی ذاتی رقم سے ایک  چھوٹا سا کاروبار کھولا ہے،جس میں اسٹیشنری کا سامان اور اسکول کا یونیفارم وغیرہ دفتر میں چلا رہاہوں۔

1:اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا کیا حکم ہے؟جب کہ ادارہ ان چیزوں کو لانے کا اور کاروبارکا متحمل نہیں ہے۔

2:دوسرا یہ پوچھنا ہے کہ اگر اس کی آمدنی میرے لیے حلال ہے تومیرے ذمہ کرایہ لازم ہے یا نہیں؟چوں کہ مدرسہ کے دفتر میں کونے میں ایک الماری رکھی ہےوہاں سامان رکھا ہے اور مدرسہ کا دفتر مسجد کے حدود سے باہر ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرسائل کے مذکورہ ذاتی کام میں ادارہ کی طرف سے مفوضہ ذمہ داری میں کوئی خلل واقع نہیں ہو رہا ہو توادارے کے مہتمم کے ساتھ باہمی مشاورت سے امور طے کرکے اس کی اجازت سے اس کی گنجائش ہے، وگر نہ اس سے اجتناب کریں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وليس ‌للخاص ‌أن ‌يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.

(قوله ‌وليس ‌للخاص ‌أن ‌يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه ‌أن ‌يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. وفي غريب الرواية قال أبو علي الدقاق: لا يمنع في المصر من إتيان الجمعة، ويسقط من الأجير بقدر اشتغاله إن كان بعيدا، وإن قريبا لم يحط شيء فإن كان بعيدا واشتغل قدر ربع النهار يحط عنه ربع الأجرة. (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

(كتاب الإجارة، مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة، ج:6، ص:70، ط:دار الفكر)

تبیین الحقائق میں ہے:

"وقال في النهاية يفتى بجواز الاستئجار على تعليم الفقه أيضا في زماننا ثم قال وفي روضة الزندوستي كان شيخنا أبو محمد عبد الله الخيزاخزي يقول في زماننا يجوز للإمام والمؤذن والمعلم أخذ الأجر قال كذا في الذخيرة.

وذكر شمس الأئمة السرخسي في باب الإجارة الفاسدة أن مشايخ بلخ اختاروا قول أهل المدينة في جواز استئجار المعلم على تعليم القرآن فنحن أيضا نفتي بالجواز. إلى هنا لفظ التتمة ثم قال فيها استأجر إنسانا ليعلم غلامه أو ولده شعرا أو أدبا أو حرفة مثل الخياطة ونحوها فالكل سواء إن بين المدة بأن استأجر شهرا ليعلمه هذا العمل يجوز ويصح وينعقد العقد على المدةحتى يستحق الأجرة تعلم أو لم يتعلم إذا سلم الأستاذ نفسه لذلك، أما إذا لم يبين المدة فينعقد لكن فاسدا حتى لو علم استحق أجر المثل وإلا فلا، وكذا تعليم سائر الأعمال كالخط والهجاء والحساب على هذا."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:5، ص:125، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144606100799

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں