بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی یکطرفہ خلع کا حکم


سوال

 ایک صاحب کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے کہ اس کی بیوی نے گھر سے ناراض ہو کر ایک رشتے دار کے گھر قیام کرتے ہوئےخاوند اور اپنے والدین و خاندان کو لا علمی میں رکھ کر فیملی کورٹ سے خفیہ طور پر خلع حاصل کیا ہے اور خلع کے فیصلہ کے چار ماہ بعد یعنی عدت کی مدت مکمل ہونے پر عدالتی فیصلے کو ظاہر کیا ہے تاکہ اپیل اور عدت کے عرصے میں رجوع کا امکان نہ رہے۔

اس صورت حال میں کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مطابق شرع متین بیچ اس مسئلے کے کہ عدالت کے ذریعے جاری کردہ خلع  واقع ہوگا یا واقع نہیں ہوگا؟ شوہر کو عدالت کا کوئی نوٹس نہیں ملا، خلع کا فیصلہ یکطرفہ طور پر عدالت نے جاری کیا ہے، عدالتی کارروائی کا شوہر نے سامنا نہیں کیا۔

اس طرز کے معاملات میں عدالتی سمن عموماً ملی بھگت سے وصول کیے جاتے ہیں، شوہر کو غیر حاضر قرار دے کر یکطرفہ کارروائی اور خلع کا فیصلہ صادر کیا  جاتا ہے۔

اس معاملے میں اہلِ خانہ اور شوہر کو بے خبر رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ عورت کے بھائی بہن اور والدین خلع یا علیحدگی کے حق میں نہیں تھے اور علیحدگی کی کوئی معقول شرعی وجہ بھی نہیں تھی۔

جواب

واضح رہےکہ خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک معاملہ ہے  جس طرح دیگر مالی معاملات کے لیے عاقدین کی رضامندی شرعاََ ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع کے معتبر اور درست ہونے کے لیے بھی زوجین کی رضامندی شرعًا ضروری ہوتی ہے،کوئی ایک فریق راضی ہو دوسرا راضی نہ ہو تو ایسا خلع شرعًا معتبر نہیں ہوتا،خواہ وہ عدالتی خلع ہی کیوں نہ ہو، بلکہ نکاح بدستور قائم رہتا ہے۔

مذکورہ تفصیل کی روسے صورتِ مسئولہ میں سائل کا بیان اگر واقعتًا صحیح ہے کہ مذکورہ خاتون نے متعلقہ عدالت سے رجوع کرکے اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر یک طرفہ طور پر عدالت سے خلع کی ڈگری حاصل کی تھی شوہر کو خلع کے اس فیصلہ کا علم ہی نہیں تھا اور تاحال شوہر نے خلع کے اس فیصلہ پر زبانی یا تحریری طور پر اجازت نہیں دی تھی تو ایسی صوت میں یہ خلع شرعاََ غیر معتبرہے، نکاح بدستور قائم ہے۔ ہاں اگر شوہر خلع کے اس فیصلہ کو تسلیم کرے تو خلع درست ہوجائے گا،جس کے بعد عدت گزار کر اس خاتون کا کسی بھی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح جائز ہوگا۔

فتح القدیر میں ہے:

"ھو ازالۃ ملک النکاح ببدل بلفظ الخلع."

(فتح القدیر ،کتاب الطلاق ،باب الخلع (4/ 58)ط:رشیدیه)

ردالمحتارمیں ہے:

" وأما ركنه فهو كما في البدائع إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول."

(ردالمحتار علی الدرالمختار،کتاب الطلاق ،باب الخلع(3/ 441)ط:ایچ ایم سعید)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

" وهو بمنزلة الطلاق بعوض وللزوج ولاية إيقاع الطلاق ولها ولاية التزام العوض."

(المبسوط للسرخسی کتاب الطلاق ،باب الخلع (6/ 310)ط:دارالفکر بیروت)

تبیین الحقائقمیں ہے:

"ولابد من قبولھا لانہ عقد معاوضۃ او تعلیق بشرط فلاتنعقد المعاوضۃ بدون القبول۔۔۔۔اذ لاولایۃ لاحدھما فی الزام صاحبہ بدون رضاہ."

(تبیین الحقائق ،کتاب الطلاق ،باب الخلع(2/ 271) ط:المطبعۃ الکبری قاھرۃ)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

" فيحتمل الفسخ بالتراضي أيضا وذلك بالخلع واعتبر هذه المعاوضة المحتملة للفسخ بالبيع والشراء في جواز فسخها بالتراضي."

(المبسوط للسرخسی کتاب الطلاق ،باب الخلع(6/ 171)ط:دارالمعرفۃ بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں