بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی یک طرفہ خلع کے بعد بیوی کا دوسری جگہ نکاح کرنا


سوال

میں نے کورٹ سے خلع لی ،اور میرا شوہر بھی وہاں موجود تھا،جج نے شوہر سے کہا کہ آپ یہاں دستخط کرو،اور مجھے کہا کہ آپ یہاں دستخط کرو،ہم دونوں نے دستخط کردیے،میں نے خلع کا کیس دائر کیاتھا،اور دستخط بھی اسی پر کیا تھا،جب کہ میرے شوہر نے صلح کا کیس کیاتھا،اور اس نے اسی صلح کے پیپر پر دستخط کیاتھا،میں سمجھ رہی تھی کہ وہ بھی خلع کا پیپر ہے،لیکن وہ صلح کا پیپر تھا،جس میں اس نے لکھاتھاکہ میں اپنی بیوی کو رکھنا چاہتاہوں،اور اس کے حقوق پورے کروں گا،پھر کورٹ نے مجھے خلع کی ڈگری دیدی ،مجھے بعد میں اس کا علم ہواتھاکہ شوہر نے صلح کا کیس دائر کیاتھا،اب چارماہ ہوگئے میں نے دوسری جگہ شادی کرلی ہے،میں بہت پریشان ہوں،کیامیرا دوسرے شوہر کے ساتھ نکاح درست ہے،یا میں پہلے شوہر کے نکاح میں ہوں؟

جواب

واضح  رہے کہ شرعی خلع دیگر عقود(معاملات)کی طرح ایک عقد (معاملہ)ہے،لہٰذا جس طرح دیگرمعاملات جانبین کی رضامندی سے ہوتی ہے ،اِسی طرح خلع میں بھی میاں بیوی کی رضامندی ضروری ہے،اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر بیوی عدالت سے خلع یا طلاق لے لے اور عدالت اِس کے حق میں یک  طرفہ خلع کی ڈگری جاری کردے،تو شرعاً ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا۔

صوررتِ مسئولہ میں سائلہ(بیوی) نے جب شوہر کی رضامندی کے بغیر عدالت سے خلع لے لیا،اور عدالت نے اس کےحق میں فیصلہ کرکے ڈگری بھی جاری کردی،تب بھی یہ خلع شرعاً معتبر نہیں ہے،اور بیوی کا دوسرے شوہر سے نکاح کرنا ناجائز اور باطل تھا، یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا، عورت بدستور اپنے پہلے شوہر کے نکاح میں ہے اور پہلے شوہر سے عورت کا نکاح قائم ہے،ایسی حالت میں دوسرے شوہر کے ساتھ نکاح کرنے  پر بیوی کو صدقِ دل سے توبہ و استغفار کرناچاہیے،البتہ اگر بیوی اپنے سابقہ شوہر کے پاس جاناچاہتی یا پہلا شوہر بیوی کو اپنے پاس رکھنا چاہتاہےتو جب تک بیوی کو حیض نہ آجائےاور وہ حیض سے پاک نہ ہوجائے تو اس وقت تک ازدواجی تعلق قائم کرنے سے احتراز کرے۔

احكام القرآن للجصاص ميں ہے:

"فلذالك قال أصحابنا : إنهما لايجوز خلعهما إلّا برضي الزوجين فقال أصحابنا : ليس للحكمين أن يفرقا إلّا برضي الزوجين، لأن الحكم لايملك ذالك فكيف يملكه الحكمان؟."

(باب الحكمين كيف يعملان ، ج: 2 ، ص: 240 ،ط: دارالكتب العلمية)   

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"قال و الخلع جائز عند السلطان و غيره لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود."

(كتاب الطلاق، باب الخلع ،ج: 6، ص: 173، ط: دار المعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"و أمّا ركنه فهو كما في البدائع : إذا كان بعوض الإيجاب و القبول، لأنه عقد على الطلاق بعوض."

  (كتاب الطلاق، باب الخلع، ج: 3 ،ص: 441، ط: سعيد)

وفيه أيضا:

"أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلًا."

(كتاب النكاح،مطلب في النكاح الفاسد،ج: 3،ص: 132، ط: سعيد)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ميں هے:

"( فصل ) : ومنها أن لاتكون منكوحة الغير ، لقوله تعالى : { والمحصنات من النساء } معطوفًا على قوله عز وجل : { حرمت عليكم أمهاتكم } إلى قوله : { والمحصنات من النساء } وهن ذوات الأزواج ، وسواء كان زوجها مسلمًا أو كافرًا."

(كتاب النكاح،5 /446،ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة ، كذا في السراج الوهاج ."

(كتاب النكاح ، القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير ،ج: 6،ص: 496، ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101201

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں