بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی خلع یافتہ لڑکی سے نکاح کا حکم


سوال

دو مہینے پہلے میرا نکاح ایک ایسی لڑکی  سے ہوا جو کورٹ سے خلع یافتہ تھی،قاضی نے نکاح پڑھایا، مگر بعد میں جب لڑکی سے قاضی نے خلع نامہ مانگا تو پتہ چلا کہ خلع کے وقت لڑکا یا اس کا وکیل عدالت میں حاضر نہیں ہوا تھا،اور اس کی غیر موجودگی میں ہی عدالت نے خلع کی ڈگری جاری تھی، تو قاضی نے ہمیں نکاح نامہ دینے سے انکار کیا،اور کہا کہ پہلے لڑکی سابقہ شوہر سے خلع لے،عدت گزارے ،پھر  دوسرا نکاح ہوگا،پھر میں نے  دو مہینے اس کے ساتھ گزارنے کے بعد اس صورتِ حال  کی وجہ سے اسے تین طلاقیں دے کر رخصت کردیا،اب میں اس سے رجوع کرنا چاہتا ہوں،طریقہ کار بتائیں!

جواب

واضح رہے کہ خلع کا معاملہ ایک مالی معاملہ کی طرح ہے،جس طرح دیگر مالی معاملات کے درست ہونے اور معتبر ہونے کے لیے جانبین کی رضامندی شرعا ضروری ہے،اسی طرح  خلع کے معتبر اور درست ہونے کے لیے بھی زوجین کی رضامندی شرعًا ضروری ہوتی ہے،کوئی ایک فریق راضی ہو اور دوسرا راضی نہ ہو تو ایسا خلع شرعًا معتبر نہیں ہوتا،خواہ وہ عدالتی خلع کا فیصلہ ہی کیوں نہ ہو،مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئلہ میں استفتاء کے ہم راہ  متعلقہ  عدالت نے لڑکی کے حق میں خلع کی جو ڈگری جاری کی ہے اس کے مطالعہ سے بھی واضح ہوا کہ خلع کے اس مقدمہ میں شوہر یا اس کی طرف سے کوئی وکیل عدالت میں حاضر ہی نہیں ہوا،بلکہ عدالت نے بیوی کے حق میں یک طرفہ طور پر خلع کی ڈگری جاری کی،اس میں شوہر کی رضامندی یا اجازت سرے سے نہیں پائی گئی،لہٰذا یہ خلع شرعًا غیر معتبر ہے، بلکہ مذکورہ لڑکی کا نکاح سابقہ شوہر سے بدستور برقرار ہے،  اس نکاح کے ہوتے ہوئے سائل کا نکاح مذکورہ لڑکی سے شرعًا منعقد نہیں ہوا، اورسائل تب تک  اس سےنکاح نہیں کرسکتا ہے جب تک یہ لڑکی اپنے سابقہ شوہر  سے طلاق  نہ لے لے،یا شوہر اس عدالتی  خلع کے فیصلےپر رضامندی ظاہر کردے،اس کے بعد عدت گزار کر سائل یا کسی اور شخص کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہوگا،ورنہ نہیں۔

باقی سائل نے اس لڑکی کو طلاق کے جو الفاظ ادا کیے تھے تو نکاح نہ ہونے کی وجہ سے طلاق کے یہ الفاظ لغو واقع ہوئے ۔

تنوير الابصار مع الدر ميں هے:

"(‌كل ‌صلح ‌بعد صلح فالثاني باطل وكذا) النكاح بعد النكاح."

(كتاب الصلح،ج5،ص636،ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"و أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبول."

(کتاب الطلاق،فصل فی شرائط رکن الطلاق وبعضھا یرجع الی المراۃ،ج3،ص145،ط:سعید)

شامی میں ہے:

وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول

(باب الخلع،ج3،ص441،ط:سعید)

وفيه ايضا:

"(قوله: و شرطه كالطلاق) و هو أهلية الزوج و كون المرأة ‌محلًّا ‌للطلاق منجزًا، أو معلقًا على الملك."

(كتاب الطلاق،باب الخلع،ج3،ص441،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144303100831

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں