بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی خلع کی حیثیت


سوال

اگر عدالت میں خلع کی بنیاد پر کیس دائر کیا گیا ہو اور شوہر عدالت میں حاضر نہیں ہوا اور اس نے زبانی یا تحریری طور پر خلع کو قبول نہیں کیا، عدالت نے نکاح فسخ کردیا، کیا نکاح ختم ہوگیا؟ اگر نہیں ختم ہوا تو کیوں نہیں ، قرآن و حدیث کے حوالے کے ساتھ آگاہ  کیجیے!

جواب

شرعًا خلع واقع ہونے کے  لیے بیوی کی جانب سے مطالبہ اور شوہر کی جانب سے قبول کرنا ضروری ہوتا ہے، پس اگر شوہر کی جانب سے خلع تسلیم نہ کیا گیا ہو تو اس صورت میں خلع واقع نہیں ہوتا، چاہے، کسی پنچائیت یا عدالت نے یک طرفہ خلع واقع کرتے ہوئے تفریق کا فیصلہ دے دیا ہو۔

رسول اللہ ﷺ نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی کی خلع کی درخواست ثابت قیس رضی اللہ عنہ کی رضامندی کے بعد قبول فرمائی تھی، نیز جس طرح نکاح مستقل عقد ہے اور وہ جانبین کی رضامندی پر موقوف ہے، اسی طرح خلع بھی درحقیقت عقد  ہے، اور عورت کی طرف سے مہر وغیرہ کے عوض خلع کرناعقد بالعوض ہے، لہٰذا یہ شوہر کے قبول کیے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتا، لہٰذا فقہاءِ کرام نے اس طرح کے نصوص اور اصول فقیہ مسلمہ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے خلع کے صحیح ہونے کے لیے جانبین کی رضامندی کی شرط ذکر کی ہے۔ 

مزید تفصیل کے  لیے دیکھیے:

عدالتی یک طرفہ خلع کی شرعی حیثیت

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201278

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں