بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی خلع


سوال

میری شادی کو تقریباً16 سال ہوگئے ہیں ،میرے دو بچے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے ،لیکن کچھ عرصہ سے میری بیوی کے ساتھ میرے معاملات کچھ خراب چل رہے تھے جس کی وجہ جو میں نے   محسوس کی :

ایک تو میں اپنے سسرال کے  گھر میں رہائش پزیر تھا علیحدہ حصے میں ۔میری اہلیہ کے گھر والوں کا میرے معاملات میں مداخلت بالخصوص میری سالی  ،جس کی وجہ سے پیچیدگیا ں بڑھتی گئیں اور معاملات دن بدن بگڑ تے گئے،اور خلع  تک نوبت جا پہنچی ۔جبکہ میری شروع سے یہی کوشش  تھی کہ میرا گھر بچ جائے اور معاملات میں بہتری آجائے۔آخرکار  میری بیوی نے عدالت میں خلع کا مقدمہ جھوٹی شرائط پر دائر کر دیا اور عدالت نے ان شرائط کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیا بغیر میرا مؤقف جانے ،جن شرائط پر عدالت نے فیصلہ سنایا ہے وہ استفتاء کے ساتھ منسلک ہے ۔

اب بندہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ جس خلع کا  عدالت نے  فیصلہ سنایا ہے جوکہ جھوٹی شرائط پر مبنی ہے وہ شرعی طور پر نافذ ہوگا یا نہیں ۔اور اگر وہ فافذ ہوجاتاہے تو کیا میں باپ ہونے کے ناطے اپنے  بچوں کی پرورش کا حق رکھتا ہوں ۔

وضاحت :شوہر عدالت میں حاضر ہوااور جج کے سامنے بیوی کے الزامات کے جواب دیے ،اس کے بعد جج نے عورت کی مرضی کے مطابق خلع گرانٹ کر دی ،اس سلسلے میں شوہر سے کوئی بات نہیں ہوئی۔

جواب

صورت مسئولہ میں منسلکہ عدالتی یکطرفہ خلع   کو شرعی خلع قرار نہیں  دیا جاسکتا؛ کیوں کہ شرعی خلع دیگر عقود (معاملات) کی طرح ایک عقد (معاملہ) ہے ، اور فقہائے کرام ؒ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ جس طرح دیگر عقود میں جانبین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے،  اسی طرح خلع میں بھی زوجین کی رضامندی ضروری  ہے، یک طرفہ طو  ر پر خلع نہیں ہوسکتی ،جبکہ صورت مسئولہ میں شوہرکی ضامندی کے بغیر یک طرفہ طور پر خلع کی ڈگری جاری کی گئی ہے۔

اسی طرح اس عدالتی کاروائی  کو تنسیخ نکاح بھی نہیں قرار دیا جاسکتا؛ کیوں کہ  تنسیخ نکاح کے لئے ضروری ہے ، کہ شوہر ظالم و جابر ہو، اور بیوی کو نان و نفقہ  وغیرہ سے محروم رکھتا ہو، اور بیوی دو شرعی گواہان کے ذریعے اس کے ظلم کو عدالت میں ثابت کرے،جبکہ منسلکہ فیصلے میں عورت نے اپنا دعوی شرعی گواہوں سے ثابت بھی نہیں کیا، لہذا اس کو شرعا تنسیخ نکاح بھی قرار نہیں دیا جاسکتا، البتہ اگر شوہر عدالتی خلع کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر دستخط کردے ، تو  اس کو شرعی خلع قرار دیا جائے گا، اور اسی سے نکاح ختم ہوجائے گا۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

(کتاب الطلاق فصل فی حکم الخلع ج3:ص229:ط الوحیدیہ پشاور)

مبسو ط سرخسی میں ہے:

"والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض."

(کتاب الطلاق باب الخلع  ج6:ص176:ط دار المعرفہ بیروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100501

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں