بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی خلع، تنسیخِ نکاح اور عدت کے اَحکام


سوال

میری عمر  35  سال ہے، میرا شوہر 6 سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے کہ ہیروئن کا نشہ کرتا ہے، میں خود نوکری کرتی ہوں، تقریبًا دو سال سے ہم دونوں کے ازدواجی تعلقات بھی نہیں ہیں، شوہر نے حق مہر یا اس  کے علاوہ بھی مجھے کچھ نہیں دیا، ہمارے تین بچے ہیں جو میرے پاس ہیں، میں نے ہر طرح اس سے نباہنے کی کوشش کی، کئی بار طلاق وغیرہ کا مطالبہ کیا، لیکن وہ آمادہ نہیں ہوا تو میں نے بالآخر کورٹ سے خلع لے لی، اب آپ سے میرے چند سوال ہیں:

1- مذکورہ صورت میں خلع ہوچکی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہوئی تو علیحدگی کی کیا صورت ہے؟

2- اگر علیحدگی ہوگئی ہے تو میری عدت کی مدت کتنی ہے اور کب سے ہے؟

3- اگر نکاح ختم ہوچکا ہے تو کیا میں دوسری شادی کرسکتی ہوں ؟

جواب

1 تا 3- واضح رہے کہ خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے  جس میں جانبین کی رضامندی ضروری ہے، اگر کوئی ایک فریق راضی نہ ہو تو شرعًا خلع معتبر نہیں ہوتا۔

صورتِ مسئولہ میں منسلکہ عدالتی فیصلے پر شوہر اگر راضی نہیں تھا اور سائلہ نے یکطرفہ طور پر عدالت سے خلع کی ڈگری حاصل کی ہے تو ایسی صورت میں منسلکہ عدالتی فیصلے سے شرعاً نکاح ختم نہیں ہوا، نکاح برقرار ہے۔

سائلہ اگر اپنے شوہر کے نکاح سے آزاد ہونا چاہتی ہے تو سب سے بہتر یہی ہے کہ شوہر سے طلاق یا خلع لے کر علیحدگی اختیار کی جائے اور اگر شوہر راضی نہ ہو تو پھر کسی مسلمان جج  کی عدالت میں تنسیخِ نکاح کا مقدمہ  پیش کرے کہ اس کا شوہر باوجود قدرت کے اس کو نفقہ نہیں دیتا اور نہ حقوقِ زوجیت ادا کرتا ہے اور اس دعوی کو دو گواہوں سے ثابت کرے، پھر حاکم  شوہر کو طلب کرے، اگر شوہر عدالت میں حاضر ہوجائے تو اس سے عورت کے الزام کے بارے میں جواب طلب کرے، اگر وہ اپنی غلطیاں تسلیم کرلے اور اس کے اعتراف سے عورت کا دعویٰ ثابت ہوجائے تو حاکم شوہر کو حکم دے کہ بیوی کے حقوق ادا کرو یا طلاق دے دو، ورنہ تفریق کردوں گا، اگر شوہر کوئی صورت قبول نہ کرے تو حاکم کو شرعاً اختیار ہوگا کہ وہ دونوں کا نکاح فسخ کردے، پھر فسخ نکاح کے بعد بیوی اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو وضع حمل تک) گذار کر دوسری جگہ نکاح کر سکے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و أما ركنه فھو کما في البدائع: إذا  کان بعوض الإیجاب والقبول، لأنه عقد علی الطلاق بعوض، فلاتقع الفرقة و لایستحق العوض بدون القبول."

(ج:3، ص:441، كتاب الطلاق، باب الخلع، ط:سعید)

وایضاً:

"إذا وجدت المرءۃ زوجھا مجبوبا أو مقطوع الذکر... إلی قوله: فرق الحاکم بطلبھا لو حرۃ بالغة غیر رتقاء وقرناء وغیر عالمة بحاله قبل النکاح وغیر راضیة به بعدہ."

(ج:3، ص:494، کتاب الطلاق، باب العنین وغیرہ، ط:سعید)

حیلہ ناجزہ میں ہے:

"سوال:جو شخص با وجود قدرت کے  اپنی زوجہ کے حقوق  نا ن و نفقہ ادا نہ کرتا ہو،  کیا   اس کی زوجہ  کو حق ہے  کہ  کسی طرح اپنے آپ کو اس کی زوجیت سے نکال سکے، اگر ہے تو اس کی کیا صورت ہے؟

الجواب:زوجہ متعنت کو اول تو لازم ہے کہ کسی طرح خاوند سے خلع وغیرہ کر لے، لیکن اگر با وجود سعی بلیغ کے  کوئی صورت نہ بن سکے تو سخت مجبوری کی حالت میں مذہبِ مالکیہ پر عمل کرنے کی گنجائش ہے، کیوں کہ ان  کے نزدیک  زوجہ متعنت کو تفریق کا حق مل سکتا ہے اور سخت مجبوری کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ عورت کے خرچ کا کوئی انتظام نہ ہوسکے،  یعنی نہ تو کوئی شخص عورت کے خرچ کا بندوبست کرتا ہو اور نہ خود عورت حفظ و آبرو کے ساتھ کسبِ معاش پر قدرت رکھتی ہو، اور دوسری صورت مجبوری کی یہ ہے کہ اگر چہ بسہولت یا بدقت خرچ کا انتظام ہوسکتا ہے لیکن شوہر سے علیحدہ رہنے میں ابتلاءِ معصیت کا قوی ا ندیشہ ہو۔

تفریق کی صورت اور اس کی شرائط

اور صورت تفریق کی یہ ہے کہ عورت اپنا مقدمہ قاضی اسلام یا مسلمان حاکم اور ان کے نہ ہونے کی صورت میں جماعت المسلمین کے سامنے پیش کرے اور جس کے پاس پیش ہو، وہ معاملہ کی شرعی  شہادت وغیرہ کے ذریعے سے پوری تحقیق کرے، اور اگر عورت کا دعویٰ صحیح ثابت ہو کہ باوجود وسعت کے اس کا خاوند اس کو خرچ نہیں دیتا تو اس کے خاوند سے کہا جائے کہ اپنی عورت کے حقوق ادا کرو یا طلاق دو، ورنہ ہم تفریق کردیں گے، اس کے بعد بھی اگر وہ ظالم کسی صورت پر عمل نہ کرےتو قاضی یا شرعاً جو اس کے قائم مقام ہو، طلاق واقع کردے، اس میں کسی مدت کے انتظار و مہلت کی باتفاقِ مالکیہ ضرورت نہیں۔

(ص:72، ط: دار الاشاعت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144305100680

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں