میری بیٹی کانکاح ہواہےرخصتی نہیں ہوئی ،جس لڑکے کے ساتھ نکاح ہواہے،اس کارویہ درست نہیں ہے،اوردھمکیاں دیتاہے کہ میں اس لڑکی کوچھوڑدوں گا،اب میری بیٹی اس کے پاس نہیں جاناچاہتی اورخلع لیناچاہتی ہے،میں نے لڑکے کے بھائی سے بات کی تواس نے بتایاکہ آپ خلع کے کاغذات تیارکرلیں ،لڑکے سے اس پرسائن میں لے لوں گا۔
کیا اس طرح شرعاًخلع معتبرہوتاہےیانہیں ؟خلع عدالت سے لیناضروری ہے یانہیں؟محض خلع کے کاغذات پرلڑکے کے سائن کردینے سے خلع ہوجاتی ہے؟اورخلع ہونے کی صورت میں مہر کاکیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ خلع عام مالی معاملات کی طرح ایک معاملہ ہے،جس طرح عام مالی معاملات میں فریقین کی رضامندی شرط اورضروری ہوتی ہے،اسی طرح خلع میں بھی جانبین یعنی میاں بیوی کی رضامندی ضروری ہے،کہ بیوی خلع کامطالبہ کرےاورشوہراس کےمطالبے کوقبول کرتے ہوئے خلع دےدے توہی شرعاًواقع ہوتی ہے،عدالت سے خلع لینانہ توضروری ہے،اورنہ ہی یک طرفہ عدالت سے خلع لینے سے شرعاًنکاح ختم ہوتاہے،بلکہ باہمی رضامندی سے کہیں بھی خلع دی جاسکتی ہے،البتہ ثبوت کے طورپرکاغذات بنوالیے جائیں تو مناسب ہے،نیز خلع کے کاغذات پرشوہرکادستخط کرنا اس کی رضامندی کی دلیل ہے،لہذا دستخط کرالینابہترہےتاکہ سندرہےاوربوقت ضرورت کام آئے۔
خلع میں اگرکوئی عوض طے ہواہےتوبیوی پرشوہرکووہ عوض اداکرنالازمی ہے،اوراگرخلع مہرکے عوض ہواہےاورشوہرنے اب تک مہرادانہ کیاہوتوشوہرپرمہراداکرنالازمی نہیں ہے،اوراگرشوہرنے مہراداکردیاہوتوبیوی پرشوہرکااداکیاہوامہرواپس کرنالازمی ہے،اوراگرشوہربغیرکسی عوض کے خلع دےدے اورمہربھی اداکردےیااداکیاہوامہرواپس نہ لے تویہ شوہرکااختیارہے ،بغیرعوض کے بھی خلع ہوجائے گا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."
(كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة، ج:3، ص:145، ط:دار الكتب العلمية)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد."
(كتاب الطلاق، باب الخلع، ج:6، ص:173، ط:دار المعرفة)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."
(كتاب الطلاق، الباب الثامن، الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به، ج:1، ص:488، ط:دارالفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144512101287
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن