میری بہن کاایک جگہ نکاح ہوا،کچھ عرصہ معاملات اچھے چلتےرہےاس کےبعد شوہرنےتنگ کرناشروع کیااورمارتاپیٹتابھی تھا،اوروالد صاحب نے بہن کوجوسونادیاتھاوہ بھی آدھابیچ کرکھاگیااورنان ونفقہ دینابھی بندکردیا،اوریہ اصرارشروع کردیاکہ جوسونابقیہ تمہاری ماں کے پاس ہے وہ بھی منگوالو(واضح رہے کہ والدہ کوجب پتاچلاتھاکہ داماد تھوڑاتھوڑاسوناکرکےبیچ رہاہےتوبقیہ اپنے پاس رکھ لیاتھا)چونکہ وہ دوبھائی گھرمیں ساتھ رہتے تھے توجب بہن کے شوہرنےنفقہ بندکردیاتودیورنے خرچہ برداشت کرناشروع کردیا،بہن کاشوہرنہ خودگھرآتاتھا،اورنہ ہی خرچہ بھیجتاتھا،اس دوران ایک بیٹی بھی ہوئی تھی،نہ اس کوان کے کھانے کاپتاتھانہ کپڑوں کا،میری والدہ سب کچھ ان کےلئے کرتی تھی۔
آخرکاراس کی بے رغبتی سے دیورنےبھی خرچہ بندکردیا،اوراپنے بھائی کوپیغام بھجوادیاکہ اپنی فیملی کوخودسنبھالو ،پھرعلاقے کےچندبڑوں کےذریعہ اس معاملہ کی حل کی کوشش کی گئی مگروہ کچھ ماہ چل کراسی طرح پھرسے معاملہ شروع ہوا۔
آخرکارہم نے تنگ آکرہم نےعدالت سے خلع کامطالبہ کیاتوعدالت نے شوہرکوبلایامگروہ نہ آیااورعدالت نے یک طرفہ فیصلہ سنایا۔
اب سوال یہ ہے کہ عدالتی خلع کی شرعی کیاحیثیت ہے؟
کیاہماری بہن کہیں اورشادی کرسکتی ہےیانہیں؟
واضح رہے کہ خلع مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین (میاں ،بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر بیوی عدالت سےیکطرفہ خلع لے اور عدالت اس کے حق میں یک طرفہ خلع کی ڈگری جاری کردے تو شرعاً ایسی خلع معتبر نہیں ہوتی، اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا، اور ایسی صورت میں عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہوتا۔
اسی طرح تنسیخ نکاح کے لئے بھی ضروری ہےکہ شوہر کے خلاف بیوی کے الزامات ایسے ہوں کہ تنسیخ نکاح کا جوازبنے،کہ شوہر ظالم ہواوربیوی کواس کے نان ونفقہ سے محروم کررکھاہو،یا شوہر پاگل یانامردیامفقود ہو،اور پھر بیوی اپنےاس دعوے کوشرعی شہادت سے عدالت یا قاضی کے سامنے ثابت کرے، یعنی دوشرعی گواہ کاہوناتنسیخ نکاح کے لیے ضروری ہے،اگر عورت اپنا دعوی شرعی شہادت سے ثابت نہ کرےمحض اپنے حلفیہ بیان پر اکتفا کرے،تو شرعًا ایسا تنسیخ نکاح بھی معتبر نہیں ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں جب عورت نے دعوی کیا کہ میرا شوہرنان ونفقہ نہیں دےرہاہے،اور عورت نے اپنا دعوی شرعی دوگواہوں سے ثابت نہیں کیا،اورجج نےفیصلہ سنا دیا،توشرعاً یہ فیصلہ معتبر نہیں ہے،کیوں کے اس فیصلہ میں نہ تو خلع کی شرائط پائی جارہی ہیں،اور نہ ہی تنسیخ نکاح کی، ہاں اگر شوہر عدالت کے فیصلے کو زبانی یا تحریری طور پر تسلیم کرے گا تو عدالت کا فیصلہ معتبر ہو جائے گا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأمّا ركنه فهو الإيجاب و القبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرْقة و لايستحَق العوض بدون القَبول".
(کتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة، ج:3، ص:145،ط:سعيد)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".
(كتاب الطلاق، باب الخلع، ج:3، ص:144، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ومنها الشهادة بغير الحدود والقصاص وما يطلع عليه الرجال وشرط فيها شهادة رجلين، أو رجل وامرأتين سواء كان الحق مالا، أو غير مال كالنكاح والطلاق والعتاق والوكالة والوصاية ونحو ذلك مما ليس بمال كذا في التبيين".
(كتاب الشهادة، الباب الأول في تعريف الشهادة وركنها وسبب أدائها وحكمها وشرائطها وأقسامها، ج:3، ص:451، ط:دارالفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601102558
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن