بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زوجۂ مفقود سے شادی کرنے کا حکم


سوال

میں نے ایک خاتون سے دوسری شادی کی اس خاتون کی پہلے 2005ء میں شادی ہوئی تھی جس سے شادی ہوئی تھی وہ شادی کے چھ ماہ تک بیوی کے ساتھ رہا، پھر  اس نے بیوی کو چھوڑ دیا، یعنی طلاق دیے بغیر گھر سے چلا گیا، اور ابھی تک اس کا علم نہیں کہ وہ کہا ں ہے،اور یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہے یا نہیں،  مذکورہ خاتون نے 2010ء میں خلع کے لیے کورٹ سے رجوع کیا اور 2011ء میں عدالت نے خلع کا فیصلہ سنا دیا، 2017ء میں میں نے مذکورہ عورت سے شادی کر لی،اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ عورت سے جو میرا نکاح ہوا وہ درست ہے یا نہیں ؟

وضاحت:پہلے شوہر نے عورت کے خلع کے مطالبہ کو قبول نہیں کیا تھا، بلکہ شوہر 2006ء سے غائب تھا، موقع پر حاضر نہیں تھا، جج نے عورت سے تین دفعہ قسم لے کر خلع کا فیصلہ سنا دیا۔

جواب

واضح رہے کہ خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے جس طرح دیگر مالی معاملات  کے معتبر اور درست ہونے کے لیے عاقدین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع کے معتبر اور درست ہونے کے لیے بھی میاں بیوی دونوں    کی  رضامندی ضروری ہے، اگر میاں بیوی میں سے کوئی  ایک راضی نہ ہو  یا خلع قبول نہ کرےتو ایساخلع شرعاً درست اور معتبر  نہیں ہوتا،اور اگر عدالت بیوی کے حق میں یکطرفہ طور پر  خلع کی ڈگری جاری کردے تو ایسا خلع بھی شرعاً معتبر نہیں ہوتا، مذکورہ تفصیل کی رو سے متعلقہ عدالتی خلع کے معاملے میں چونکہ شوہر نہ حاضر ہوا اور نہ اُس نے خلع کو قبول کیا ، لہذا یہ خلع شرعاً درست نہیں، اور اس عورت کا نکاح سابقہ شوہر سے برقرار ہے۔ 

نیز متعلقہ عدالتی  فیصلے کو تنسیخ ِنکاح بھی نہیں قرار دیا جاسکتا ہے؛ کیونکہ اس میں تنسیخ ِ نکاح کی شرائط  موجودنہیں ہیں، اس لیے کہ جس  عورت کا شوہر مفقود (لاپتہ)  اس کے لیے  اصل حکم تو یہ ہے کہ وہ عفت و پاکدامنی کے ساتھاپنی زندگی گزارے، لیکن اگر وہ مفقود شوہر کے نکاح  سے رہائی حاصل کرنا چاہے تو  اس کی صورت یہ ہےکہ مفقود کی بیوی اپنا مقدمہ مسلمان قاضی کی عدالت میں پیش کرے اور گواہوں سے ثابت کرے کہ میرا نکاح فلاں شخص کے ساتھ ہوا تھا، پھر گواہوں سے اس کا مفقود اور لاپتا ہونا ثابت کرے، اس کے بعد قاضی خود اپنے طور پر اس کی تفتیش وتلاش کرے، جہاں اس کے جانے کا غالب گمان ہو وہاں آدمی بھیجا جائے، اور جس جس جگہ جانے کا غالب گمان نہ ہو صرف احتمال ہو وہاں خط ارسا ل کرنے کو کافی سمجھے، اور خطوط ارسال کرکے تحقیق کرے، اور اگر اخبارات میں شائع کردینے سے خبر ملنے کی امید ہو تو یہ بھی کرے۔

    الغرض تفتیش وتلاش میں پوری کوشش کرے، اور جب پتا چلنے سے مایوسی ہوجائے تو قاضی، عورت کو چار سال تک مزید انتظار کا حکم دے، پھر ان چار سالوں کے اندر بھی اگر مفقود کا پتا نہ چلے تو عورت قاضی کے پاس دوبارہ درخواست کرے، جس پر قاضی اس کے مردہ ہونے کا فیصلہ سنا دے، اس کے بعد چار ماہ دس دن عدت گزار کر عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا اختیار ہوگا۔
    اور اگر عورت زنا کا شدید خطرہ ظاہر کرے تو ایسی صورت میں چار سال کے انتظار کا حکم ضروری نہیں، بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ شوہر کے غائب ہونے کے وقت سے اب تک کم از کم ایک سال کا عرصہ گزرچکا ہے یا نہیں؟ اگر گزر چکا ہو تو قاضی مزید مہلت دیے بغیر اس وقت بھی نکاح ختم کرسکتا ہے، اسی طرح اگر زنا میں مبتلا ہونے کا خطرہ تو نہیں، لیکن مفقود کا اتنا مال موجود نہیں جو ان چار سالوں میں اس کی بیوی کے نان و نفقہ کے لیے کافی ہو، یا بیوی کے لیے مفقود کے مال سے نان ونفقہ حاصل کرنا مشکل ہو تو اس صورت میں اگر نان ونفقہ دینے کے بغیر کم از کم ایک ماہ گزرا ہو تو قاضی نکاح ختم کرسکتا ہے۔
    واضح رہے کہ آخری ان دونوں صورتوں میں عورت عدتِ وفات کے بجائے عدتِ طلاق گزارے گی، جو قاضی کے فیصلے کے وقت سے شمار ہوگی۔

اور اگر دوسری شادی کے بعد پہلا شوہر لوٹ آئے تو  مذکورہ خاتون کا نکاح اس کے  پہلے شوہر سے بدستور قائم رہےگا، دوسرے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح خود بخود باطل ہو جائے گا؛  اس لیے دوسرے شوہر سے فوراً علیٰحدگی لازم ہوگی۔ اور اگر اس خاتون کی دوسرے نکاح کی رخصتی بھی ہو گئی ہو تو  پہلے شوہر کو اس کے ساتھ صحبت کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہوگا جب تک وہ دوسرے شوہر کی عدت پوری نہ کرلے۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں:

’’اس صورت میں عورت کا شرعی حکم یہ ہے کہ عدالت میں دعویٰ تفریق بوجہ مفقود الخبری شوہر دائر کرے، حاکم بعد تحقیقات ایک سال کی مدت انتظار کے لیے مقرر کردے، اگر اس عرصہ میں زوجِ غائب نہ آئے تو نکاح فسخ کردے، تاریخِ فسخ سے عدت گزار کر دوسرا نکاح کرلے۔ ایک سال کی مدت مقرر کرنا ضروری ہے، ذرائعِ رسل ورسائل کا وسیع ہونا اس شرط کے خلاف نہیں ہے، اور نہ ذرائع کی وسعت اس امر کو لازم ہے کہ گم شدہ شوہر کا پتا معلوم ہوجائے کہ وہ زندہ ہے کہ نہیں،آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کے متعلق معلوم کرنے کے لیے کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، تمام ذرائع استعمال کرلیے جاتے ہیں اور فیصلہ کرلیا جاتاہے، لیکن بعد میں فیصلہ غلط ہوتاہے،غرض یہ کہ ایک سال کی مدت اس مصلحت کے لیے ہے کہ امکانی حد تک شوہر کے متعلق کسی نتیجہ پر پہنچاجائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم‘‘(عائلی قوانین شریعت کی روشنی میں )

الحاصل اس خلع کی بنیاد پر  مذکورہ عورت کا نکاح سابقہ شوہر سے  ختم نہیں ہوا تھا ، بلکہ نکاح باقی تھا،اس صورت میں  سائل کا اس عورت سے  نکاح کرنا جائز نہیں تھا، اور نہ یہ نکاح منعقد ہوا تھا، لہذا سائل کے لیے اس عورت کو اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ۔

ارشادِ  باری تعالیٰ ہے:

"{فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ} ."(البقرة: 229)

ترجمہ: "سو اگر تم لوگوں کو یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابطِ خداوندی کو قا ئم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا اس (مال کے لینے دینے) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے۔" (از بیان القرآن)

أحكام القرآن للجصاص  میں ہے:

"قال أصحابنا: إنهما ‌لا ‌يجوز ‌خلعهما إلا برضى الزوجين، فقال أصحابنا: ليس للحكمين أن يفرقا إلا برضى الزوجين; لأن الحاكم لا يملك ذلك فكيف يملكه الحكمان؟ وإنما الحكمان وكيلان لهما أحدهما وكيل المرأة والآخر وكيل الزوج في الخلع  ...وكيف يجوز للحكمين ‌أن ‌يخلعا بغير رضاه ويخرجا المال عن ملكها وقد قال الله تعالى: {وآتوا النساء صدقاتهن نحلة فإن طبن لكم عن شيء منه نفسا فكلوه هنيئا مريئا} [النساء:4] وقال الله تعالى: {ولا يحل لكم أن تأخذوا مما آتيتموهن شيئا إلا ‌أن ‌يخافا ألا يقيما حدود الله فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229]."

 (سورة البقرة  آيت:229، ‌‌مطلب البيان من الله تعالى على وجهين،  ج:2، ص:239، ط: العلمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌إذا ‌تشاق ‌الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية. إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع. وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان."

(كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع ، ج: 1، ص: 488، ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے : 

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

(کتاب الطلاق ، فصل في شرائط ركن الطلاق ،(3/ 145) ط : دارالکتب العلمیة)

المبسوط للسرخسي" میں ہے: 

"ونكاح المنكوحة لا يحله أحد من أهل الأديان."

(كتاب السير، باب نكاح اهل الحرب، ج:10، ص:96،ط: العلمية)

"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" میں ہے:

"«ومنها أن لا تكون ‌منكوحة ‌الغير، لقوله تعالى: {والمحصنات من النساء} [النساء: 24] معطوفا على قوله عز وجل: {حرمت عليكم أمهاتكم} [النساء: 23] إلى قوله: {والمحصنات من النساء} [النساء: 24] وهن ذوات الأزواج، وسواء كان زوجها مسلما أو كافرا".

(كتاب النكاح، فصل أن لا تكون معتدة الغير،ج:2،ص:268،ط:العلمية)

فقط واللہ تعالی اعلم


فتوی نمبر : 144508100081

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں