بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی یک طرفہ خلع کا شرعی حکم


سوال

میری شادی میری خالہ زاد کزن سے ہوئی ہے، میرا ایک چار سال کا بیٹا ہے، میں شادی کے کچھ دن بعد ہی نشہ میں مبتلا ہو گیا تھا، اور میں نے نوکری بھی چھوڑ دی تھی، میری زوجہ اور میرے بچے کی مکمل کفالت کھانے پینے سمیت میرے گھر والے کر رہے تھے، اور زوجہ کابھائی بھی ہر ماہ کچھ خرچہ میری زوجہ کو دے کر جاتا تھا، میں نشہ کر کے رات کو دیر سے گھر آتا تھا، میرے گھر والے اور میری زوجہ میرا نشہ چھڑوانے کے لیے مجھ سے  لڑائی جھگڑا کرتے تھے، میری زوجہ کو شادی سے پہلے ہی میری والدہ نے بیٹی بنایا ہوا تھا تو گھر کا ہر فرد میری زوجہ کو بہن بیٹی کا درجہ دیتا تھا، میرے نشہ سے تنگ آکر میری زوجہ اپنے بھائی کے ساتھ دوست کےگھر جانے کا جھوٹ  بول کر گھر سے بھاگ گئیں، اور بھائی اس کو ان کے ماموں کی بیٹی کے سسرال چھوڑ آیا، جن کی شادی غیروں میں ہوئی  ہے، ان کے شوہر نے میری زوجہ کو مجھ سے علیحدہ ہونے پر اکسایا، او ر دوسری شادی کروانے کا مشورہ دیا، اس دوران میں نے نشہ چھوڑنے کا پکا ارادہ کیا، اور میرے بھائیوں نے مجھے علاج کے لیے ایک ادارے میں بھیج دیا، میں اب نشہ مکمل چھوڑ کر علاج کرواکر صحت مند ہو کر واپس آگیا ہوں، اپنے بیوی بچے کی خاطر کہ اب ہنسی خوشی آگے زندگی بسر کروں گا۔

یہاں   میری زوجہ نے مجھے کورٹ سے خلع کے نوٹس بھیج دیے ہیں، لیکن میں کورٹ نہیں گیا، کیوں کہ میں کبھی اپنی زوجہ کو طلاق دینے کو تیار نہیں ہوا ہوں، تیسرے نوٹس کے فوراً بعد ہی میری زوجہ اپنے ماموں کی بیٹی کے سسرال میں  عدت کے لیے بیٹھ گئی ہیں، تاکہ عدت ختم ہوتے ہی فوراً دوسرا نکاح کریں، میری زوجہ نے کورٹ کے تیسرے نوٹس میں جھوٹی باتیں لکھ کر ان باتوں کو بنیاد بنا کر کورٹ سے خلع کی سند حاصل کی ہے، میری زوجہ کے والدین ان کی شادی سے پہلے ہی وفات پا چکے ہیں، زوجہ کی کورٹ نوٹس میں وہ جھوٹی باتیں یہ ہیں کہ میں اور میرے گھر والوں نے ان سے جھگڑا کیا ہے، انہیں مارا پیٹا، اور دھکے دے کر گھر سے نکالا ہے، حالاں کہ وہ خود اپنے بھائی کے ساتھ جھوٹ بول کر گھر سے بھاگ گئیں، کیا میرے طلاق دیے بغیر ان کی یہ خلع اور عدت جائز ہے؟

میری زوجہ کی مجھے چھوڑنے کی بنیادی وجہ صرف میرا نشہ تھا جو کہ میں اب مکمل طور پر چھوڑ چکا ہوں، میری زوجہ کا بھائی اور ان کے ماموں کی بیٹی کا شوہر عدت ختم ہوتے ہی میری زوجہ کا فوراً دوسرا نکاح کروانے کو تیار بیٹھے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بس خلع ہو گیا ہے، برائے کرم میری راہ نمائی فرمائیں اور مجھے بتائیں کہ اس جھوٹ کی بنیاد پر خلع ہوگیا ہے یا میری زوجہ اب ہی میرے نکاح میں ہیں تو میری زوجہ کا بھائی اور زوجہ اور زوجہ کے ماموں کی بیٹی کا شوہر اگر پھر بھی دوسرا نکاح کروانے کی کوشش کریں تو ان کے لیے کیا حکم ہوگا؟ یہ بھی ضرور ارشاد فرمادیں!

جواب

خلع  ایک عقد ہے جس میں جانبین (میاں بیوی)کا  ایجاب و قبول کرنا ضروری ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں چوں کہ  شوہر عدالت میں حاضر نہیں ہوا، اور نہ (زبانی یا تحریری طور پر) اس نے خلع کو قبول کیا ہے، اور بیوی کو طلاق بھی نہیں دی، تو اس طرح شوہر کی اجازت کے بغیر عدالت کا یک طرفہ خلع شرعاً معتبر نہیں ہے، اور نہ ہی عورت پر عدت لازم ہے، بلکہ مذکورہ عورت  سے سائل کا نکاح بدستور باقی ہے۔

اور بیوی کے بھائی اور ماموں کے داماد  کا دوسری جگہ سائل کی بیوی کا نکاح کروانا بھی درست نہیں ہے۔

"رد المحتار"  میں ہے:

"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

(کتاب الطلاق، باب الخلع،3/ 441، ط:سعيد)

بدائع  الصنائع ميں ہے:

"ومنها أن لا تكون منكوحة الغير، لقوله تعالى: والمحصنات من النساء[النساء: 24] معطوفا على قوله عز وجل: حرمت عليكم أمهاتكم [النساء: 23] إلى قوله: والمحصنات من النساء [النساء: 24] وهن ذوات الأزواج، وسواء كان زوجها مسلما أو كافرا إلا المسبية التي هي ذات زوج سبيت وحدها."

 (کتاب النکاح،  فصل فی شرط ان لا تکون منکوحة الغیر، 3/ 451، ط:دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144512100239

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں