بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی خلع کی شریعت کی رو سے کیا حیثیت ہے؟


سوال

میں نے عدالت میں خلع کا کیس دائر کیا تھا، شوہر کے حاضر نہ ہونے کی وجہ سےعدالت نے میرے حق میں خلع کا فیصلہ سنایا ہے۔اب میری عدالت سے خلع ہو چکی ہے تو شریعت کی رو سے یہ جائز  ہے؟ خلع ملنے کے بعد سےمیں نے 3 ماہ 10 دن گزار لیے ہیں تو کیا میری عدت پوری ہو گئی یا 4ماہ  10 دن عدت ہوگی؟میرا شوہر باوجود استطاعت کے مجھے نان و نفقہ نہیں دیتا تھا  اورمجھ پر بہت ظلم و ستم کرتا تھا اور مجھے گھر سے بھی نکال دیا تھا،اب  میں گزشتہ تین سال سے علیحدہ رہ رہی ہو،  اب خلع لینے کے بعد میں کہیں اور نکاح کر سکتی ہوں؟

جواب

اگر شوہر عدالت میں حاضر نہیں ہوا  اور اس نے زبانی یا تحریری طور پر خلع کو قبول نہیں کیا تو ایسے یک طرفہ عدالتی فیصلے کو شرعی خلع قرار نہیں دیا جاسکتا؛ کیوں کہ شرعی طور پر خلع معتبر ہونے کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے، جب کہ مذکورہ صورت میں  خلع کا فیصلہ شوہر کی اجازت و رضامندی سے نہیں ہوا اور شوہر نے اس خلع نامہ پر زبانی یا تحریری طور پر دستخط کر کے اس کو قبول بھی نہیں کیا ۔ نیز  عمومی احوال میں شوہر کی اجازت، وکالت اور تفویض کے بغیر کسی اور کو طلاق دینے کا بھی اختیار نہیں ہے۔

نیز ایسے عدالتی فیصلے کو تنسیخِ نکاح قرار دینے کے لیے چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے اور وہ یہ کہ یا تو شوہر نامرد ہو، یا مجنون ہو، یا مفقود (لاپتا ہو) ہو یا متعنت (ظالم) ہو کہ بیوی کا نان ونفقہ نہ دیتا ہو اور ظلم کرتا ہو۔ پھر عورت اپنے اس دعوی کو شرعی گواہوں کے ذریعے عدالت کے سامنے ثابت بھی کرے۔ نیز متعلقہ صورت میں سے ہر ایک کی شرائطِ معتبرہ کی رعایت رکھی جائے، سو اگر یہ شرائط پائی گئیں تو عدالت کا فیصلہ شرعاً تنسیخِ نکاح ہوگا اور میاں بیوی میں جدائی ہوجائے گی اور اگر یہ شرائط مکمل نہ ہوں تو ایسے یک طرفہ عدالتی فیصلے کو تنسیخِ نکاح بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ شوہر عدالت میں حاضر نہیں ہوا اور خلع پر رضامندی کا اظہار نہیں کیا لہذا یہ خلع واقع نہیں ہوا، سائلہ کا نکاح بدستور برقرار ہے، کسی دوسری جگہ نکاح کرنا درست نہیں، البتہ اگر سائلہ کا شوہر اسے نان نفقہ ادا نہیں کرتا تو سائلہ اس سے طلاق یا خلع لے لے اور اگر وہ خلع یا طلاق دینے پر راضی نہ ہو تو عدالت سے تنسیخِ نکاح کی ڈگری حاصل کرلے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ سائلہ شوہر کے حقوق ، نان و نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر  تنسیخِ نکاح کا  مقدمہ مسلم  عدالت میں دائر کرے،پھر اپنے نکاح کو شرعی گواہوں سے ثابت کرے ،اس کے بعد شوہر کے حقوق ادا نہ کرنے کو شرعی گواہوں سے ثابت کرے ،پھرقاضی شرعی شہادت کے ذریعہ پوری تحقیق کرے،اگر عورت کا دعوی صحیح ثابت ہو کہ شوہر باوجود وسعت کے حقوق ادا نہیں کررہا تو  جج شوہرکوعدالت میں حاضر ہونے کاسمن جاری کرے  ، اگر شوہر عدالت میں حاضر ہوکر گھر بسانے پر آمادہ  ہوجائے تو ٹھیک،لیکن  اگر وہ عدالت میں حاضر نہ ہو یا حاضر ہو لیکن حقوق کی ادائیگی پر راضی نہ ہو تو عدالت نکاح فسخ کردے، جس کے بعد  عورت اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية: لايتم الخلع ما لم يقبل بعده."

(باب الخلع، ج:3، ص: 440، ط:دار الفكر-بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول." 

(کتاب الطلاق، ج: 3، ص: 145  ، ط:دار الكتب العلميہ)

فقط وللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102095

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں