بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی خلع کا حکم


سوال

 میری بیوی کو میں نے ابھی گزری بڑی عید پر اپنی اور اس کی خوشی کی خاطر اس کو ان کے والدین کی گھر بیج دیا اور میں اپنے والدین کے گھر عید منانے آیا اور اس طرح بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ رابطے میں دونوں رہ کر عید منائی اور پھر کچھ دنوں بعد یعنی 16 جولائی کو واپسی کردی ہم دونوں نے اور اس طرح اگے اپنی زندگی گزارنے لگے ہمیشہ کی طرح خوش اسلوبی کے ساتھ۔ چونکہ میں پنجاب میں نوکری کرنے کی وجہ سے اور اپنی اور اس کی خوشی کی خاطر اپنی بیوی کو ساتھ رکھا تھا پچھلے 6 سالوں سے۔ اب 6 ستمبر کو معمولی تکرار پر میکے بیٹھ گئی اور کچھ دن اوپر مہینے کے اس نے خلع درج کرانے والے پیپر مجھے واٹس ایپ کر کے ساتھ ہی رابطے کرنے سے غیر اخلاقی الفاظ کے ساتھ مجھے منع کیا اور نمبر بلاک کردیا۔ اب 10 نومبر کو اس کے والد نے میرے بھائی کو یک طرفہ خلع کے جاری ڈگری عدالت سے کروائی ہوئی واٹس ایپ کی ہے۔اور ان کے والد کہہ رہا ہے کے تین مہینے بعد میری بیٹی عدالتی خلع سے آزاد ہو جائے گی۔ محترم!  نہ خلع پر مجھے کوئی نوٹس موصول ہوا ہے نہ یونین کونسل کے ذریعے کوئی نوٹس ملا ہے حالانکہ 15جولائی کو میری بیوی نے بیان ریکارڈ کرکے اگلے دن 16 جولائی کو اپنے گھر واپس آئی جیسے کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ عید کے بعد واپس آئی۔ تو اس طرح ابھی یہ میکے بیٹھنے تک اس نے کوئی ذکر نہیں کیا تھا مجھے خلع کے سلسلے میں۔ کیا اب یہ خلع صحیح ہے کیونکہ کہ یہاں تو مجھے کوئی علم نہ تھا نہ ہوا شاید جان بوجھ کر مجھے حقیقت نہیں بتائی اور پھر اس نے شاید مجھے دوھکے میں رکھ کر یہ سب کیا۔ مہربانی فرما کر شرعی لحاظ سے میری رہنمائی فرمائیں ان پورے معاملے کے مطابق۔

جواب

عدالت نے عورت کو کیا فیصلہ دیا اور کس بنیاد پر دیا ہے اس کی دستاویز دیکھے بغیر حتمی حکم بیان نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا دار الافتاء میں عدالتی دستاویزات مع اردو ترجمہ کے بھیج کر جواب معلوم کرلیا جائے، یا درج ذیل ای میل ایڈریس پر عدالتی دستاویز اصل مع اردو ترجمہ ارسال کردیجیے:

ای میل ایڈریس : [email protected]

اصولی جواب یہ ہے کہ:

خلع  مالی معاملات  کی طرح  ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر  مالی معاملات  معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع  معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی  ضروری ہوتی  ہے،  لہذا خلع کے لیے شوہر کی رضامندی اور اجازت ضروری ہے، نیز طلاق دینا بھی شوہر کا حق ہے،  اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر  بیوی  عدالت سے خلع یا طلاق لے لے اور عدالت اس کے  حق میں یک طرفہ خلع کی  ڈگری جاری کردے تو شرعاً ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا، اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا، اور ایسی صورت میں عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول".

(بدائع الصنائع: كتاب الطلاق، فصل وأما الذي يرجع إلى المرأة (3/ 145)، ط. دار الكتاب العربي، سنة النشر 1982، مكان النشر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101440

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں