بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی تنسیخ نکاح کا حکم


سوال

ایک منکوحہ عورت رخصتی سے (شادی سے پہلے) پہلے کسی شخص سے بھاگ جائے اور ان دونوں نے عدالت سے ڈگری حاصل کی اور عدالت نے شوہر حقیقی سے کوئی تحریری یا تقریری طلاق کامطالبہ بھی نہیں کیا بلکہ خود عدالت نے نکاح اول فسخ کیا ۔کیا یہ فسخ ٹھیک ہے ؟ اور اس دوسرے شوہر سے نکاح کرنا درست ہے؟

کیاشرعا تنسیخ نکاح کا اختیارعدالت کو حاصل ہے جب کہ عذرشرعی نہ ہو ؟ کیا شریعت نے طلاق کا اختیار شوہر کو نہیں دیا؟ اگر کسی اور کے پاس ہے تو ماخذ کے ساتھ بیان فرمائیں ۔

نوٹ :اگر عدالت نے شوہر اول کو بلالیا اور وہ حاضر نہ ہوا تو پھر کیا حکم ہے؟

جواب

آپ کا سوال بہت عمومی ہے، عورت نے کس بنیاد پر تنسیخ کا مقدمہ دائر کیا ہے؟ اس کی بنیاد پر جواب مختلف ہوسکتاہے، جو صورتِ حال درپیش ہے، اسے لکھ کر سوال کیا جاتا تو مسئلہ واضح ہوسکتاتھا۔بہر حال عمومی سوال کا عمومی جواب مندرجہ ذیل ہے:

عدالت کو بلاکسی شرعی  وجہ  اور تنسیخ نکاح کی شرائط کو ملحوظ رکھے بغیر نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے ، اگر عدالت بلاکسی وجہ کے یا شرائط کا لحاظ کیے بغیر کسی نکاح صحیح کو فسخ کرتی ہے تو ایسا نکاح عدالتی فیصلے سے ختم نہیں ہوتا، نہ ہی ایسی عورت کے لیے کسی دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوتا ہے ۔ بلکہ سابقہ نکاح ہی برقرار رہتا ہے ۔ البتہ بعض صورتوں میں عدالتی فیصلہ کو تنسیخِ نکاح قرار دیا جاتا ہے اور اس میں شوہر کی حاضری کے بغیر ہی عورت کے دعویٰ پر نکاح فسخ سمجھا جاتا ہے، لیکن  اس قسم کے عدالتی فیصلے کو تنسیخِ نکاح قرار دینے کے لیے چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے اور وہ یہ کہ یا تو شوہر نامرد ہو، یا مجنون ہو، یا مفقود (لاپتا ہو) ہو یا متعنت (ظالم) ہو کہ بیوی کا نان نفقہ نہ دیتا ہو اور ظلم کرتا ہو۔ پھر عورت اپنے اس دعوی کو شرعی گواہوں کے ذریعے عدالت کے سامنے ثابت بھی کرے۔ نیز متعلقہ صورت میں سے ہر ایک کی شرائطِ معتبرہ کی رعایت رکھی جائے، سو اگر  شرائط پائی گئیں تو عدالت کا فیصلہ شرعاً تنسیخِ نکاح ہوگا اور میاں بیوی میں جدائی ہوجائے گی، ان شرعی وجوہات اور شرائط  کے پائے جانے کی صورت میں اگر شوہر عدالت کے بلانے کے باوجود حاضر نہ ہوتا ہو تب بھی عدالتی فیصلہ معتبر ہوگا۔جیساکہ اس کی تفصیل حیلہ ناجزہ میں لکھی گئی ہے۔اور اگر یہ شرائط مکمل نہ ہوں تو ایسے یک طرفہ عدالتی فیصلے کو تنسیخِ نکاح بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ عورت کا نکاح ہوچکا تھا پھر بلاکسی شرعی وجہ کے عورت نے عدالت سے ڈگری لے کر دوسرا نکاح کیا ہے تو پہلا نکاح ختم نہیں ہوا، اور دوسرا نکاح شرعاً جائز نہیں ، بلکہ دونوں کے درمیان فوری علیحدگی لازم ہے ۔ 

بہتر یہ ہے کہ مذکورہ معاملے کی عدالتی کاروائی کے مکمل کاغذات (دعوی، جواب دعوی اور فیصلہ وغیرہ ) دارالافتاء کو فراہم کرکے اس کا شرعی حکم  معلوم کرلیا جائے ، عمومی جواب اوپر ذکر کردیا گیا ہے ۔ 

بدائع  الصنائع میں ہے: 

"[فصل أن لاتكون ‌منكوحة ‌الغير]

ومنها أن لا تكون ‌منكوحة ‌الغير، لقوله تعالى:{والمحصنات من النساء}[النساء: ٢٤] ."

(كتاب النكاح، فصل أن لاتكون ‌منكوحۃ  ‌الغير:268/2،ط:دار الکتب العلمیۃ)

خیر الفتاوی میں ہے:

"جب تک شوہر اپنی زوجہ کے حقوق پوری طرح ادا کرنے پر قادر ہواور نان نفقہ کا بھی انتظام کرتاہواس وقت تک اس کی زوجہ کا نکاح قابل فسخ نہیں ہوتا، اگر جج اپنے کسی قانون کے تحت فسخ بھی کردے توبھی شریعت میں وہ فسخ متعبر نہیں ہوتابلکہ شریعت میں وہ قائم رہتاہے، اور شرعاًعورت کادوسری جگہ نکاح درست نہیں ہوتا۔"

(کتاب النکاح،باب فسخ النکاح،ج:6،ص:67،ط:مکتبہ امدادیہ ملتان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں