بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

عدالتی خلع کا حکم


سوال

عدالت کے ذریعے لی گئی خُلع کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ اس بارے میں شرعی رہنمائی فرماکر مشکور فرمائیں۔

جواب

خلع  مالی معاملات  کی طرح  ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر  مالی معاملات  معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع  معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی  ضروری ہوتی  ہے،  لہذا خلع کے لیے شوہر کی رضامندی اور اجازت ضروری ہے، نیز طلاق دینا بھی شوہر کا حق ہے،  اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر  بیوی  عدالت سے خلع یا طلاق لے لے اور عدالت اس کے  حق میں یک طرفہ خلع کی  ڈگری جاری کردے تو شرعاً ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا، اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا، اور ایسی صورت میں عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔

نیز خلع کے فیصلے کو تنسیخِ نکاح قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ تو واضح رہے کہ ایسے عدالتی فیصلے کو تنسیخِ نکاح قرار دینے کے لیے چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے اور وہ یہ کہ یا تو شوہر نامرد ہو، یا مجنون ہو، یا مفقود (لاپتا ہو) ہو یا متعنت (ظالم) ہو کہ بیوی کا نان نفقہ نہ دیتا ہو اور ظلم کرتا ہو۔ پھر عورت اپنے اس دعوی کو شرعی گواہوں کے ذریعے عدالت کے سامنے ثابت بھی کرے۔ نیز متعلقہ صورت میں سے ہر ایک کی شرائطِ معتبرہ کی رعایت رکھی جائے، سو اگر یہ شرائط پائی گئیں تو عدالت کا فیصلہ شرعاً تنسیخِ نکاح ہوگا اور میاں بیوی میں جدائی ہوجائے گی اور اگر یہ شرائط مکمل نہ ہوں تو ایسے یک طرفہ عدالتی فیصلے کو تنسیخِ نکاح بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

الفتاوى الهندية میں ہے:

"الخلع إزالة ملك النكاح ببدل بلفظ الخلع كذا في فتح القدير."

( الفتاوى الهندية، كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع،الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه، 488/1، رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

(بدائع الصنائع، كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق، 145/3، دارالكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403100768

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں